ڈائنوسار کے زمانے میں ایک سال 372 دن کا ہوتا تھا!
برسلز: سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ آج سے 7 کروڑ سال پہلے، جب زمین پر ڈائنوسار کا راج تھا، ایک سال میں 365 کے بجائے 372 دن ہوتے تھے جبکہ ایک دن کا دورانیہ 24 گھنٹے نہیں بلکہ 23.5 گھنٹے (یعنی آج کے مقابلے میں 30 منٹ کم) ہوا کرتا تھا۔
یہ دریافت آج سے کروڑوں سال پہلے پائے جانے والے صدفیوں (mollusks) کی ایک قسم کے انتہائی تفصیلی اور باریک بینی سے کیے گئے مطالعے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں لیزر کی جدید ترین تکنیک سے استفادہ کیا گیا تھا۔
صدفیوں کی یہ معدوم قسم Torreites Sanchezi کہلاتی ہے جو آج سے کروڑوں سال پہلے سمندر میں پائی جاتی تھی اور دیکھنے میں کسی چوڑی اور لمبوتری سیپ کی طرح لگتی تھی۔ بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ ارضیات نے ان صدفیوں کے جن رکازات (فوسلز) پر تحقیق کی، وہ موجودہ سلطنتِ عمان کے خشک اور بنجر پہاڑوں سے دریافت کیے گئے تھے اور 7 کروڑ سال قدیم ہیں۔
مذکورہ صدفیوں کا خول بڑی تیزی سے بڑھتا تھا اور اس میں درختوں کے سالانہ حلقوں کی طرح روزانہ کی بنیاد پر نہایت باریک حلقے نمودار ہوتے تھے۔ حلقے بڑھنے کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا جو پورے ایک سال بعد بار بار دوہرایا جاتا تھا۔ البتہ یہ کام انتہائی حساس اور باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والی ٹیکنالوجی کا منتظر تھا۔
بلجیم کے ماہرین نے لیزر کی مدد سے صدفیوں کا خول نہایت باریکی سے کاٹا اور پھر خردبین کے ذریعے ان میں موجود روزانہ حلقوں اور ان میں دکھائی دینے والے نمونے (پیٹرن) کا خردبینی جائزہ لیا۔
مختلف صدفیوں میں آٹھ سے نو سال پر محیط حلقوں کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آج سے 7 کروڑ سال پہلے ہماری زمین پر ایک سال کی مدت 372 دن تھی، جو آج 365 دن ہوچکی ہے۔
مختلف شواہد کی بنیاد پر ماہرین کو یقین ہے کہ سورج کے گرد زمین کا مدار پچھلے 4.5 ارب سال سے یکساں ہے جبکہ اپنے مدار میں زمین کی رفتار بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
اسی بناء پر ارضیات دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اُس وقت زمین اپنے محور پر زیادہ تیزی سے گھوم رہی تھی اور 23 گھنٹے 30 منٹ (23.5 گھنٹے) میں ایک محوری گردش پوری کرلیتی تھی۔ یعنی اُس زمانے میں ایک ’’دن‘‘ کا دورانیہ 23.5 گھنٹے ہوا کرتا تھا۔
اگرچہ یہ انکشاف خاصا اہم ہے لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا اس سے پہلے بھی زمین کی گردشی رفتار زیادہ تھی یا درمیان میں کچھ عرصے کےلیے بڑھ کر پھر دوبارہ آہستہ ہوگئی۔
اس دریافت کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’پیلیو اوشنوگرافی اینڈ پیلیو کلائمیٹولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔