گھٹنوں کی لجلجی بافتوں کی جگہ استعمال ہونے والا ربڑ تیار
سویڈن: ہڈیوں کی رگڑ اور ٹوٹ پھوٹ سے نہ صرف ان کے درمیان موجود نرم اور کرکری ہڈی یا بافت تباہ ہوجاتی ہے بلکہ انہیں آپریشن سے بحال رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اب سویڈن کی چامرز یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک حیاتیاتی ربڑ بنایا ہے جسے بالخصوص گھٹنوں کی درمیانی ہڈیوں میں رکھا جاسکتا ہے ۔ ہمارے گھٹنوں کے درمیان ہڈیوں کو رگڑ سے بچانے والی لچکدار اور لجلجی بافتیں ہوتی ہیں جنہیں کرکری ہڈی بھی کہا جاسکتا ہے۔ گھسنے اور ٹوٹ پھوٹ سے یہ متاثر ہوتی ہے اور مریض کو چلنے پھرنے میں شدید تکلیف اور جلن محسوس ہوتی ہے۔
اس ربڑی مٹیریل کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ جسم میں داخل کرنے کے بعد یہ بھاری ہڈیوں کے وزن کو بھی سنبھال سکتا ہے۔ یہ ایک طرح کا حیاتیاتی مٹیریل ہے جو پہلے ہی کئی طرح کے طبی مقاصد میں استعمال ہورہا ہے۔ یہ بہت نرم، لچکدار لیکن مضبوط ہے۔
اس میں نینوجسامت (ایک میٹر کے اربویں حصے کے برابر) کے سوراض ہیں جن میں دوا بھی شامل کی جاسکتی ہے۔ پھر انہیں دوا سے بھر کر جسم کے اندر مطلوبہ مقام پر رکھا جاسکتا ہے۔ اس جگہ پہنچ کر بایو ربڑ دھیرے دھیرے دوا خارج کرتا رہتا ہے۔ اس طرح منہ کے ذریعے دوا کھانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
اسی طرح بدن می کسی بھی جگہ خواہ وہ ناک ہو، کان ہو یا کوئی اورمقام ، وہاں اسے حیاتیاتی ربڑ کو لگایا جاسکتا ہے۔ اسی مٹیریل کی بدولت انسانی کمر کے مہرے کے حصے بھی تھری ڈی پرنٹر سے بنائے جاسکتے ہیں۔ پھر انہیں روایتی طریقوں سے جسم کے اندر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
تاہم چامرز یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ سب سے پہلے اس سے مٹیریل سے پیشاب کی نالیاں تیار کی جائیں گی اور ان کی سطح کو پیپٹائڈز جیسے پروٹین سے ڈھانپا جائے گا کہ انفیکشن اور بیکٹیریا سے محفوظ رہا جاسکے۔ تاہم اب اس ٹیکنالوجی کو کاروباری سطح تک لے جانے پر کام ہورہا ہے اور ایک کمپنی بھی بنادی گئی ہے۔