کورونا وائرس، پاکستانی نوجوان نے خلیوں میں مزاحمت کا طریقہ ڈھونڈ لیا

کراچی: محمد علی شاہ بھی ان دنوں لاک ڈاؤن میں ہیں لیکن اپنا یہ قیمتی وقت تحقیق میں صرف کررہے ہیں حالیہ دنوں میں انھوں نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے کورونا وائرس کی بناوٹ اور انسانی جسم پر پڑنے والے اثرات کا گہرائی سے جائزہ لیا اور ٹھوس نتائج پر پہنچنے میں کامیاب رہے جو کرونا وائرس سے بچاؤ اور اس کے علاج کا طریقہ دریافت کرنے کی جانب بنیاد فراہم کرتا ہے.

محمد علی نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے سینٹھیٹک اینٹی جینز کی تیاری کے لیے مصنوعی ذہانت کے ایک ایڈوانس طریقے ڈیپ لرننگ تکنیک کا استعمال کیا، پہلے پہل انھوں نے مصنوعی ذہانت کے طریقے سے کورونا وائرس کے علاج کی دوا کی تیاری پر توجہ دی لیکن پھر ایسے اینٹی باڈیز کی تلاش شروع کردی جو انسان کے نظام تنفس کو کورونا وائرس کے حملے سے بچاسکیں اور متاثرہ افراد کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرکے کورونا وائرس کو ختم کرنے کی صلاحیت پیدا کرسکیں۔

محمد علی 40لاکھ مالیکیولز اور کمپاؤنڈز کا مصنوعی ذہانت کے ذریعے تجزیہ کیا جو کورونا وائرس کے علاج میں معاون ثابت ہوسکیں او ر ان سے کارگر ترین اینٹی باڈیز بنائے جاسکیں جو کرونا کے وائرس سے چپک کر اسے انسانی نظام تنفس میں پنجے گاڑھنے سے روک سکیں، چار روز تک جاری رہنے والی تحقیق کا مرکز کورونا وائرس پر خار پشت porcupine جیسے کانٹے دار بناوٹ تھی جو انسانی جسم میں داخل ہوکر پروٹین بنانے والے بلاکس سے چپک جاتے ہیں۔

محمد علی شاہ کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کے جراثیم کو انسانی جسم یا نظام تنفس میں پروٹین بلاکس سے چپکنے سے بچانے کے لیے ایک ایسی ویکسین کا تیار ہونا ضروری ہے جو جنیاتی مواد کے ذریعے انسانی جسم کے خلیات کو کرونا کے وائرس سے پزل گیم کی طرح لڑنا سکھائے یعنی ویکسین کے جرثومے انسانی خلیوں کو کورونا کے ہر وائرس کے حساب سے اینٹی باڈیز کی ایک ایسی شکل بنائے جو وائرس سے لپٹ کر اس کے کانٹوں کو انسانی خلیوں میں پیوست ہونے سے روک سکیں۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے