نظری طور پر 10 ٹیرا بٹس فی سیکنڈ ڈیٹا منتقل کرنے والا پروٹو ٹائپ تیار
رہوڈ آئی لینڈ: سائنسدانوں نے ایک نظام بنایا ہے جس کے تحت نظری طور پر یہ ممکن ہے کہ ایک سیکنڈ میں 10 ٹیرا بٹس کا ڈیٹا ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہے۔
اس عمل کی تیاری میں ڈیٹا ٹرانفسر کی فری کوئنسی کو تبدیل کیا گیا ہے۔ فری کوئنسی بڑھانے کی وجہ سے عین اسی جگہ پر بینڈ ودتھ یعنی ڈیٹا کی گنجائش کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ڈیٹا کی منتقلی پر اثر پڑتا ہے اور اس کی غیرمعمولی مقدار ایک سے دوسرے مقام بہت تیزی سے بھیجی جاسکتی ہے۔
اس سے قبل انجینیئر غور کرتے آئے ہیں کہ بلند فری کوئنسی کا اسٹرکچر یا (ویو گائیڈ) کو بڑھا کر ڈیٹا کی بڑی مقدار کو سنبھالا یا ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن اب رہوڈ آئی لینڈ کی براؤن یونیورسٹی کے ماہرِ طبیعیات ڈینیئل مٹل مین نے اس مسئلے کو کم ازکم نظری (تھیوری) حد تک ضرور حل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ڈیٹا کی بڑی مقدار میں منتقلی عین ممکن ہے۔ لیکن اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے عین وہی اصول استعمال کئے گئے ہیں جن کے تحت ہم ڈی ایس ایل سروسز حاصل کرتے ہیں۔ یعنی عام فون لائن پر براڈ بینڈ رابطے کے ذریعے چند میگاہرٹز کی فری کوئنسی کو بڑھا کر 200 گیگا ہرٹز تک لے جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس کی تصدیق کے لیے انہوں نے ایک پروٹوٹائپ بھی تیار کیا ہے۔
اس نظام کے تحت تاروں کو باندھا گیا ہے حساب کتاب لگایا گیا تو تین میٹر کی دوری پر 10 ٹیرا بٹس کا ڈیٹا پہنچ رہا تھا جبکہ 15 میٹر کی دور پر 30 گیگا بٹس کا ڈیٹا پہنچنا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تار کی لمبائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا ضائع ہونے کی شرح بڑھ رہی تھی۔ اسی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی اب تک کم فاصلوں کے لیے کارگر ثابت ہوسکتی ہے یعنی کسی عمارت اور ڈیٹا سینٹر میں اندرونی رابطوں کو تیز کرسکتی ہے۔
لیکن ڈیٹا کو مزید دور تک بھیجنے کے لیے تحقیق اور ہارڈویئر پر کام کی مزید ضرورت ہے۔ یہ سفر جاری رہے گا جب تک کوانٹم انٹرنیٹ کی آمد نہیں ہوتی کیونکہ سائنسدانوں کا ایک سنجیدہ طبقہ اس پر کام کررہا ہے کیونکہ آئے روز تیز رفتار انٹرنیٹ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔