کورونا کے باعث معاشی بحران، پاکستان کا وہ فائدہ جو دیگر ممالک حاصل نہ کر سکے
لاہور : ماہر معاشیات مزمل اسلم کا کہنا کہ فرض کریں آپ کی آمدنی کے دو حصے ہیں۔ایک جگہ سے آپ کو90 فیصد پیسے ملتے ہیں اور ایک جگہ سے آٹھ فیصد ملتے ہیں۔تو اگر نوے فیصد والی آمدنی وہیں پر رہے اور 10 روپے والی آمدنی آٹھ روپے پر آ جائے تو اس کا کتنا اثر ہو گا ؟ اسی طرح ہماری معیشت کی 90 فیصد ڈومیسٹک اکانومی تھی جب کہ 10فیصد ایکسپورٹ اکانومی تھی۔
یعنی کہ ہماری معیشت کی 90 فیصد آمدنی مقامی پیداوار سے آتی تھی۔اور ہمارا یہی رونا ہوتا تھا کہ دنیا کے کسی ملک ایکسپورٹ جی ڈی پی 20ہے تو کسی ملک کی 30ہے،لیکن ہماری بہت کم ہے جس وجہ سے ہمارے ذر مبادلہ کے ذخائر نہیں بنتے تھے اور ہم قرضہ لیتے تھے۔لیکن آج کل کے حالات میں اس صورتحال نے ہمیں دوسرے ممالک کی نسبت قدرے بہتر پوزیشن میں کھڑا کیا ہے۔
ہم برآمدات کرتے تھے وہ بالکل ہی سادہ تھی،یعنی کہ ہم بیڈ شیٹس، چاول وغیرہ برآمد کر رہے تھے۔ہم کوئی سامسنگ کا کوئی فون نہیں بناتے تھے اور نہ ہی ایپل کا گیجٹ بناتے تھے۔ہم کوئی ہائی ٹیک چیز نہیں بنا رہے تھے۔تو جن ممالک کی ایکسپورٹ کی ہم مثالیں دیتے تھے ان کے مقابلے میں ہماری ایکسپورٹس متاثر نہیں ہوں گی۔
جب کہ دوسری جانب م پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زرملک بجھوانے کی شرح میں جاری مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 6 فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیاہے۔
سٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جولائی 2019 ء سے لیکرمارچ 2020ء کے اختتام تک سمندرپارمقیم پاکستانیوں نے 16.991 ارب ڈالر کازرمبادلہ ملک ارسال کیا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی تین ماہ میں سمندرپارمقیم پاکستانیوں نے 16.030 ارب ڈالرکازرمبادلہ ملک ارسال کیاتھا۔
مارچ 2020ء میں سمندرپارمقیم پاکستانیوں نے 1.894 ارب ڈالرکازرمبادلہ ملک ارسال کیاجوگزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 9.28 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں سمندرپارمقیم پاکستانیوں نے 1.733 ارب ڈالرکازرمبادلہ ملک ارسال کیاتھا۔