مٹی کے چولہے صحت کے لیے مزید خطرناک قرار
چھتیس گڑھ: اس وقت دنیا کے لاکھوں کروڑوں گھروں کے اندر کچے مٹی اور گارے کے چولہے استعمال ہورہے جن میں لکڑی اور کوئلہ وغیرہ جلایا جاتا ہے۔ اس عمل سے کاربن ذرات اور سیاہ دھواں بنتا ہے جو خواتین اور بچوں کے لیے بالخصوص بہت تباہ کن ہوسکتا ہے۔
سینٹ لوئی میں واقع واشنگٹن یونییورسٹی کے سائنسداں راجن چکروتی نے بھارتی دیہاتوں پرایک مفصل تحقیق کی ہے۔ چھتیس گڑھ کے اس علاقے میں اپنی تحقیق میں نوٹ کیا کہ گھروں کے اندر نصب کچے چولہوں سے اٹھنے والی کاربن اور دیگرسیاہ ذرات کپڑوں، گھروں کی دیواروں سمیت سانس کی نالیوں میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ اس سے صحت پر خطرناک نتائج اثرانداز ہوتے ہیں۔
عام طور پر چولہے میں فصلوں کا پھوگ، گائے کا گوبر،لکڑی اور برادہ وغیرہ بھی جلایا جاتا ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ بھی بنتا ہے۔ اس طرح یہ ماحول اور انسان دونوں کے لیے ہی خطرناک ثابت ہورہا ہے۔
اس تحقیق میں سیاہ کاربن کے ذرات کو انتہائی مضر قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین کی ٹیم نے چھتیس گڑھ کے علاقے میں مختلف اقسام کے 30 سے زائد ٹیسٹ کئے جن میں مختلف ایندھنوں کے اثرات بھی دیکھے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ مٹی اور گارے سے بنے تندور نما چولہوں سے سفید اور سیاہ دھواں خارج ہوتا ہے جس میں بلیک کاربن بھی ہوتا ہے اور بھورا یعنی براؤن کاربن بھی پایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس دھوئیں میں سیاہ کاربن کے ساتھ ساتھ پولی سائیکلک ایئرومیٹک ہائیڈروکاربنز بھی پایا جاتا ہے جو انسان اور جانوروں میں کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ایسے چولہے افریقہ، ایشیا اور دنیا کے دیگر غریب ممالک میں عام استعمال ہوسکتے ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ اکثر گھروں میں چولہے اندر کی جانب لگائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تھر کے اندر مخصوص گھروں یعنی چونرا کے اندرایسے چولہے لگائے جاتے ہیں اور اس کا دھواں گھرکے اندر ہی گھومتا رہتا ہے۔ یہ دھواں انتہائی خطرناک ذرات کے ساتھ گھر کےکپڑوں اور اطراف میں نفوذ کرجاتا ہے