انسان کے قدرتی عمل میں مداخلت سے کوررونا نے جنم لیا۔امریکی سائنسدان
امریکا : امریکی سائنسدان اور ماحولیات کا کہنا ہے کہ انسان نے قدرت کے کاموں میں عمل دخل کیا اور جنگلی جانوروں کی غیرقانونی فروخت کی۔جس کی وجہ سے کورونا وائرس نے جنم لیا۔تھامس لو جوائے کا کہنا ہے کہ یہ قدرت کا انتقام نہیں بلکہ ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں اور اس کا حل یہ ہے کہ قدرت کا احترام کیا جائے۔
برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق پروفیسر تھامس کا کہنا تھا کہ کورونا عالمی باقدرتی ماحول میں مسلسل اور بہت زیادہ مداخلت اور بڑے پیمانے پر جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کی وجہ سے پھیلا۔
خاص طور پر ایشیا اور افریقا میں زندہ جنگلی جانوروں کی مارکیٹس اس کی ذمہ دار ہیں۔امریکی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کسی بھی وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا حل یہ ہے کہ مارکیٹوں میں جنگلی جانوروں اور فارمز کے جانوروں کو علیحدہ رکھا جائے۔
یا پھر مارکیٹس بالکل بند کر دی جائیں۔سائنسدانوں نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح سے بلیک مارکیٹس بھی بنیں گی جو زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔
پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول میں مداخلت کے باعث سائنسدان ہر سال تین سے چار وائرس کی دریافت کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی عالمی وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فطرت کے خلاف اس طرح کے عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔چین کے شہر ووہان میں بھی زندہ جانوروں کے گوشت کی مارکیٹس کو کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
جہاں جنگلی لومڑیوں ،چوہوں، گلہریوں اور اس طرح کے دیگر جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا تھا۔خیال رہے کہ ۔ کچھ عرصہ قبل بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ ممکنہ طور پر پینگولیئن وہ جانور ہے جس کے باعث چین میں کرونا وائرس پھیلا۔ اس حوالے سے تحقیق کی جا رہی تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پینگولیئن کے کیے جانے والے ٹیسٹ کی رپورٹس میں ایسے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جو کرونا وائرس سے ملتا جلتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے ابھی بھی حتمی رائے قائم نہیں کی گئی، اور مزید تحقیق جاری ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جنگلی جانوروں کی منڈی میں پینگولیئن کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ پینگولیئن ان جانوروں میں سے ایک ہے جن کو زیادہ تر غیر قانونی طریقے سے سمگل کیا جاتا ہے۔ اس جانور کو روایتی دوائیوں اور خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جینیاتی ڈیٹا بتاتا ہے کہ ان جانوروں کو چھونے اور انھیں لانے لیجانے کے عمل میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، اسی لیے جانوروں کی منڈی میں ان کی خرید و فروخت سخت ممنوع قرار دے دینی چاہیئے۔