بھارتی خفیہ ایجنسیاں مودی کی متعصب پالیسیوں کے دفاع کیلیے دنیا بھرمیں سرگرم

کراچی: پاکستان اپنے ملک کو دھشتگردی سمیت مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے عدم استحکام سے دوچارکرنے کے بھارتی منصوبوں پر طویل عرصے سے دنیا کی توجہ مبذول کرانے میں لگا ہوا ہے ، 2016 میں ایک حاضر سروس بھارتی فوجی کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا ثبوت تھی کہ پاکستان کے یہ خدشات کہ بھارت اپنی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کو کمزور کرنے اور ملک میں بدامنی پھیلانے کے لئے استعمال کر رہا ہے صرف تصوراتی نہیںہیں، پاکستان ہی نہیں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے اس کا کوئی پڑوسی بھی محفوظ نہیں ہے۔

گزشتہ ماہ ایک ششدر کردینے والا واقعہ رونما ہوا جس سے پتہ چلا کہ یہ صرف اس کے پڑوسی ہی نہیں بلکہ ہزاروں میل دوری پر واقع ملک بھی اس کی دستبرد سے محفوظ نہیں ہیں،کینیڈا کی گلوبل نیوز نے انکشاف کیا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی پاکستان کے خلاف کینیڈا کے سیاست دانوں پر اثرانداز ہونے کیلئے بے پناہ رقوم خرچ کرتی رہی اور انہیں خفیہ طور پر پاکستان کے خلاف غلط معلومات بھی دی گئیں،انکشاف کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسیوں ’’را‘‘ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے کینیڈا میں یہ آپریشن 2009 ء سے شروع کر رکھا تھا۔

پاکستانی عہدیداروں اور کچھ معروف ماہرین کا کہنا تھا کہ اس انکشاف سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھارت کا محض ایک خفیہ آپریشن نہیں ہو سکتا وہ اس طرح کے اور دیگر آپریشنز میں بھی یقیناً مصروف ہو گا،ماہرین نے یاد دلایا کہ چند ماہ قبل جرمن حکام نے ایک بھارتی جوڑے کو گرفتار کیا تھا جو مبینہ طور پر ’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھا اور اسے کشمیری نژاد جرمن شہریوں کی جاسوسی کا کام سونپا گیا تھا۔ خاص طور پر کینیڈا میں انھوں نے کینیڈا کے سابق سفارتکار اور حالیہ سیاستدان الیگزنڈر کا بھی حوالہ دیا جس نے نہ صرف میڈیا میں آ کر پاکستان پر افغانستان میں عسکریت پسندوں کی مدد کا الزام عائد کیا بلکہ بطور وزیر امیگریشن بھارتی شہریوں کے لئے نئی ویزا سکیمیں متعارف کرائیں، ماہرین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کینیڈا کی ایک ایرواسپیس فرم کے صدر اور ان کی اہلیہ کو بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ روابط کے باعث قومی سلامتی کے منصوبوں سے ہٹا دیا گیا، دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل (ر) انعام الحق نے بتایا کہ بھارت کے تین مخصوص مفادات ہیں جن کے تحفظ کیلئے وہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کرتا ہے۔
پہلا وہ پاکستان اورچین مشترکہ مفاد کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، دوسرا بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کو کچلنا ،کینیڈا میں سکھ برادری بہت بڑی تعداد میں آباد ہے اور وہ خالصتان تحریک کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، تیسرا بھارتی ایجنسیاں دنیا بھر میں مودی کے بیانیہ کو فروغ دینے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مودی کی زیر قیادت بھارت مکمل طور پر نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے،ہمیں میڈیا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،ہمیں دنیا کو بھارتی طرز عمل سے روشناس کرا کے بیدار کرنے کیلیے سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کی اشد ضرورت ہے۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے