زخم بھرنے کے عمل پر نظر رکھنے والی ’سینسرپٹی‘

ٹیکساس: ناسور، پیر کے السر اور ذیابیطس کے زخم بھرنے میں بہت وقت لیتے ہیں۔ بار بار پٹی کھولنے سے زخم مزید خراب بھی ہوسکتا ہے۔ اب ماہرین نے ایک سینسر والی پٹی تیار کی ہے جو زخم بھرنے کا مکمل جائزہ لیتی ہے اور ساتھ ہی جسمانی امنیاتی نظام کی خبربھی دیتی ہے۔

اسکولٹیک اور یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ماہرین نے اس سینسر کی تفصیل ایک تحقیقی جریدے میں پیش کی ہیں۔ زیابیطس اور پریشر والے السر بہت مشکل سے ٹھیک ہوتے ہیں۔ عام طور پر بار بار بینڈیج کھول کر انہیں دیکھنا ہوتا ہے لیکن یہ عمل خود زخم کو مزید بڑھا بھی سکتا ہے۔ پھر مریضوں کو بار بار ہسپتال کے چکر بھی لگانے پڑتے ہیں۔

لیکن ایسے زخموں کو محض دیکھنے سے ہی کام نہیں بنتا بلکہ کئی مرتبہ زخم کا ٹکڑا بایوپسی کے لیے بھی تجربہ گاہوں میں بھجوایا جاتا ہے۔
اسمارٹ بینڈیج

روس اور امریکہ کی ٹیموں نے ایک کم خرچ اور سادہ سینسر بنایا ہے جو انسانی آزمائش کے لیے بالکل تیار ہے۔ یہ سینسر الیکٹرواینالیٹکل (برقی تجزیاتی) اصول پر کام کرتا ہے۔ اس میں نہایت پیچیدہ حیاتیاتی مائعات ڈالے گئے ہیں جو انسانی مزاج اور جسم کے اندرونی عمل کی طرح کام کرتے ہیں۔

ابتدائی آزمائش کے بعد ماہرین نے ایک لچکدار بینادی مٹیریئل یعنی سبسٹریٹ پر کاربن سے بنی الٹرمائیکروالیکٹروڈز کی قطاریں لگائیں جنہیں ’سی یو اے‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پھر ایک تدبیر سے انہیں پولی ایتھائلین ٹیرفتھلیٹ (پی ای ٹی) سے بنی ایک پٹی پر رکھا گیا۔

اب عین زخم جیسے ماحول میں اس ایجاد کو آزمایا گیا تو زخم بگڑنے میں اہم کردار ادا کرنے والے تین اہم اجزا کو سینسر نے شناخت کرلیا اور بتادیا کہ زخم اب بھی خراب ہے یا مزید بگڑسکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسے حقیقی مریضوں کے زخم یا ناسور کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد کسی زخم میں حقیقی وقت (ریئل ٹائم) میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا گیا۔

یہ ہلکا پھلکا سینسر اس معیار بھی پورا اترا یعنی انسانوں پر لگانے کے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے