جاپان میں ’مصنوعی ذہانت‘ رشتے کرانے والی خالہ بن گئی
ٹوکیو: جاپانی حکومت نے ملک میں شادیوں سے بے رغبتی اور تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی میں اضافے کے لیے کنواروں کے رشتے کرانے کے لیے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا اے آئی) کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے عمل ایک اور دماغی اور نفسیاتی رحجان ’ایموشنل کوشنٹ‘ یا ای کیو کو بھی استعمال کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے لیے خطیر رقم خرچ کی گئی ہے اور اے آئی کی بنیادوں پر لوگوں کو جوڑنے کا باقاعدہ منصوبہ اگلے برس شروع ہوگا۔ اس کی ایک اور تشویشناک وجہ یہ ہے کہ جاپان میں آبادی کی شرح کم ہورہی ہے اور بوڑھے افراد کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ برس 8 لاکھ 65 ہزار بچے کم پیدا ہوئے جو ایک نیا ریکارڈ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں نئے بچوں کی پیدائش کی شرح بہت کم ہے۔
مصنوعی ذہانت سے رشتے کرانے والے نظام کے لیے دو کروڑ ڈالر کی رقم رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف شہروں کی مقامی حکومتوں کو بھی سبسڈی دی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بالخصوص جاپانی خواتین اپنے کیریئر میں ایک شاندار مقام پر پہنچ چکی ہیں اور وہ شادی سے کتراتی ہیں ۔ یہ مردم بیزاری شادیوں کے بحران کی وجہ بن رہی ہے۔ دوسری جانب شادیوں میں صرف ظاہری صورت، عمر اور آمدنی ہی دیکھی جاتی ہے جبکہ مصنوعی ذہانت دیگر بہت سے نادیدہ لیکن اہم شخصی خواص عیاں کرسکتی ہے۔ اس سے کنواروں کی دلچسپیاں، مشاغل اور اقدار سے لگاؤ سامنے آتا ہے۔
خبررساں اداروں کے مطابق اب مصنوعی ذہانت کو رشتے کرانے والی روایتی خاتون کی جگہ استعمال کیا جائے گا اور اس کا فیصلہ جاپانی کابینہ میں کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے عوام شادی کی جانب راغب ہوگی اور یوں گھٹتی ہوئی آبادی کوبڑھانے میں مدد ملے گی۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2017 میں 12 کروڑ 80 لاکھ آبادی کے گھٹںے کی رفتار اسی طرح برقرار رہی تو صدی کے اختتام تک وہاں صرف 5 کروڑ سے کچھ زائد کی آبادی ہی باقی رہے گی۔ اسی وجہ سے خود جاپانی میں ہر سطح پر کام کرنے والی افرادی قوت کی شدید قلت ہے۔