بی جے پی کی مسلم دشمن قانون سازی پرسینیئر بھارتی بیوروکریٹس کا احتجاج
دہلی: سو سے زائد سینیئر بیوروکریٹس نے بی جے پی کی حکومتی پالیسی کے باعث بھارتی ریاست یوپی کو نفرت انگیزی اورامتیازی سلوک کا مرکز قرار دے دیا۔
بھارتی خبررساں ادارے کے بعد یوپی میں تبدیلی مذہب کے حوالے سے قانون سازی پر 104 سینیئر ترین سابق بھرتی بیورکریٹس نے یوپی میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کو خط لکھا ہے۔
اس خط میں تبدیلی مذہب سے متعلق قانون سازی کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے جاری کیے گئے آرڈیننس کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ اس قانون سازی کے باعث اُتر پردیش نفرف انگیزی اور معاشرتی امتیازی سلوک کا مرکز بن چکا ہے۔
سینیئر ترین سابق بیوروکریٹس کی جانب سے لکھے گئے خط میں یوپی کے مختلف شہروں میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور قانون کے ذریعے انہیں نشانہ بنانے کے متعدد واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں مراد آباد میں بجرنگ دل نے ایک شخص پر ہندو لڑکی سے زبردستی مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگوایا۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے بھی 16 برس دو نوجوانوں کو اس قانون کی آڑ میں ہندو انتہا پسند گروہوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔
خط لکھنے والے 104انڈین ایڈمنسٹریٹیوو سروس کے سینیرئ ترین بیوروکریٹس میں بھارت کی قومی سلامتی کے سابق مشیر شیوشنکر مینن، سابق سیکریٹری خارجہ نروپما راؤ اور بھارتی وزیر اعظم کے سابق مشیر ٹی کے اے نائر بھی شامل ہیں۔ ان سب افسران نے بھارت اور بالخصوص یوپی میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی پر اظہار مذمت بھی کی ہے اور مستقبل سے متعلق گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے امتیازی قوانین واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔