امریکہ میں بڑآئینی تنازع کھڑا ہوگیا

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آخری ایام میں ایک بڑا آئینی تنازع کھڑا کردیا ہے ٹرمپ اپنے قانونی ماہرین سے بطور صدر خود کو صدارتی معافی دینے کے بارے میں مشاورت کررہے ہیں جبکہ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئین میں اس کی وضاحت موجود نہیں ہے تاہم صدر خود کو معافی دے کر مستقبل میں آنے والوں کے لیے ایک بری مثال قائم کریں گے.

کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا دورِ صدارت ختم ہونے سے قبل کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کرانے کے الزامات کے تحت ممکنہ کارروائی اور سزا سے بچنے کے لیے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے خود کو بھی معاف کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ سوال ان دنوں صرف واشنگٹن میں ہی نہیں بلکہ پورے امریکا میں آئینی وقانونی ماہرین کے ہاں زیربحث ہے . واشنگٹن میں فسادات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے دورِ اقتدار میں دوسری بار تاریخی مواخذے کا بھی سامنا ہے جس کا آغاز رواں ہفتے ہو چکا ہے جبکہ ان کی حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تشدد کے لیے اکسانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی وفاقی سطح تحقیقات کی جائیں اس صورتِ حال میں یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ کیا ٹرمپ صدارتی معافی کے اختیار کو اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں تاکہ مزید قانونی چارہ جوئی سے خود کو نکال سکیںیہ سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ ان دنوں اپنے قانونی مشیران سے اس سلسلہ میں مشاورت کررہے ہیں جس سے یہ تاثرملتا ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال کرنے پر غور کررہے ہیں.

ٹرمپ ماضی میں بھی اس معاملے کو اٹھا چکے ہیں 2016 میں صدر کی انتخابی مہم کے روس سے روابط پر 2018 میں ہونے والی خصوصی تحقیقات پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ خود کو معاف کر سکیں لیکن یہ باز گشت بھی موجود ہے کہ اپنی معافی ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے مفاد میں نہیں ہو سکتی جبکہ مبینہ طور پر ان کے مشیر بھی انہیں اس اقدام سے دور رہنے کا مشورہ دے چکے ہیں انہوں نے اپنے دور صدارت میں صدارتی معافی کے استعمال کا بے دریغ استعمال کیا ہے تاہم اب وہ یہی اختیار اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے پر غور کررہے ہیں امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کی خبروں نے قانونی وآئینی حلقوں میں زلزلہ برپاکردیا ہے کیونکہ کوئی شخص چاہے وہ صدر ہی کیوں نہ ہو وہ خود ہی مجرم اور جج نہیں بن سکتا .
ادھر کچھ ماہرین نے صدر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس اختیار کو اپنی ذات کے لیے استعمال نہ کریں کیونکہ اپنی معافی کا اعلان ایک طرح سے خود کو قصور وار ٹہرانے کے مترادف ہو سکتا ہے دوسری جانب قانونی ماہر کہتے ہیں ان کا یہ اقدام محکمہ انصاف مکمل طور پر الٹ بھی سکتا ہے اور آئندہ صدر جو بائیڈن صدارتی معافی کو چیلنج کر سکتے ہیں جس کے بعد دوبارہ سے ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات عائد ہو سکتے ہیںویہ ان اقدامات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے قبل اپنی معافی کا اقدام کر سکتے ہیں.

امریکی صدر خود کو معاف کرسکتے ہیں یا نہیں امریکہ کا آئین اس معاملے میں وضاحت نہیں کرتا بلکہ اس معاملے پر خاموش ہے تاہم آئین کی دوسری شق کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ امریکہ کے خلاف ہونے والے کسی جرم میں عارضی استثنیٰ یا مکمل معافی دے سکیں البتہ مواخذے کے معاملے میں یہ اختیار حاصل نہیں ہے ایسے میں آئین کے تحت دیے گئے اس اختیار کی مزید تشریح کی ضرورت موجود ہے .

امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اور کتاب ”پریزیڈینشل پارڈن پاور“ کے مصنف جیفری کروچ کہتے ہیں کہ کسی بھی صدر نے کبھی اپنی معافی کی کوشش نہیں کی اس لیے اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی نظیر موجود نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں صرف صدررچرڈ نکسن نے اس حوالے سے سوچا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا. وہ لوگ جن کے خیال میں صدر خود کو معاف کر سکتے ہیں وہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ ایسا کرنا آئین کے برعکس نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ صدارتی معافی کے یہ اختیار حاصل ہے کہ وفاقی نوعیت کے جرائم کو معاف کیا جا سکتا ہے تو اگر صدر نے خود کوئی وفاقی نوعیت کا جرم کیا ہو تو صدر کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ اپنے آپ کو معاف کر سکیں لیکن وہ لوگ جن کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے اور جو اکثریت میں بھی ہیں، وہ یہ بحث کرتے ہیں کہ ایسا اقدام جس میں معافی دینے کا عمل کیا جا رہا ہو، یہ ایک دوطرفہ اقدام ہے جس میں دو افراد کا شامل ہونا ضروری ہے.
صدارتی معافی کی قانونی حیثیت کے بارے میں یونیورسٹی آف میمفس میں قانون کے پروفیسر اسٹیو ملروئے کہتے ہیں کہ معافی دینے کی اصطلاح کا مفہوم دراصل ایک شخص کی دوسرے کو معاف کرنے کے طور پر لیا جاتا ہے مگر امریکہ کے قانونی نظام میں خود کو معاف کرنے کی مثال نہیں ملتی انہوں نے کہاکہ انگلش قانون کے تحت کوئی خود اپنے ہی مقدمے میں جج نہیں ہو سکتا وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے معافی کا اختیار ایک وسیع معانی رکھتا ہے اور سپریم کورٹ نے کبھی بھی اس کو مسترد نہیں کیا البتہ بیشتر آئینی ماہرین یہی کہیں گے کہ اس اختیار کے تحت کوئی خود کو معاف کرنے کا اعلان نہیں کر سکتا.

محکمہ انصاف کے سامنے اسی طرح کا سوال 1974 میں بھی سامنے آیا تھا اس وقت اس کا جواب نفی میں تھا اس وقت محکمہ انصاف کے قانونی مشیر کے دفتر نے ایک میمو لکھا تھا کہ خود کو معاف کرنے کا اختیار اس کے بنیادی اصول کے برعکس ہے جس کے تحت کوئی شخص اپنے ہی مقدمے میں منصف نہیں ہو سکتا یہ میمو اب بھی محکمہ انصاف کی پالیسی کا حصہ ہے. قانونی ماہرین کے مطابق اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صدر اپنے آپ کو معاف کرنے کے لیے اس اختیار کا استعمال کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے اگر وہ اپنے آپ کو معافی کے انتخاب کی جانب بڑھتے ہیں، تو وہ اپنے کو ”مکمل اور غیر مشروط معافی“ جاری کر سکتے ہیں عام طور پر جب صدر کسی کو معافی دینے کا اختیار استعمال کرتے ہیں تو دستاویزات میں واضح ہوتا ہے کہ کن جرائم پر اس شخص کو معافی دی جا رہی ہے اسی طرح صدر ٹرمپ نے معافی کے لیے اختیار حالیہ مہینوں میں استعمال کیا جس میں انہوں نے اپنے کئی سابقہ ساتھیوں کو جرائم پر معافی کا اعلان کیا .

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے