دہشتگردی اور انتہاء پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وزیراعظم عمران خان
اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دہشتگردی اورانتہاء پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، میں نے ہرفورم پر اسلامو فوبیا کی بات کی ،یہودی منظم ہیں، کسی کی مجال نہیں کوئی مغرب میں ان کیخلاف بات کرے، مسلم امہ کو متحد ہونا پڑے گا، میں نے مسلم امہ کے لیڈرز کو خطوط بھی لکھے اور اقوام متحدہ میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا۔
انہوں نے علماء مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء مشائخ کا پاکستان بنانے میں بڑا کردار تھا، دنیا کی تاریخ میں ایک ہی ملک اسلام کے نام پر بنا، دینی حلقوں نے پوری طرح مدد کی، شاید ایک آدھ نے مخالفت کی، باقی سب قائداعظم کے ساتھ کھڑے تھے، پاکستان کو بنانے میں علماء کا بڑا کردار ہے،علامہ اقبال کی پاکستان کیلئے خواب اور فلسفہ بڑا تھا، وہ پاکستان کو ایسا ملک دیکھنا چاہتے تھے کہ پاکستان ساری دنیا کیلئے اسلام کا ماڈل ہوگا، کیونکہ مسلمان اسلام سے دور ہوتے گئے تھے۔
پاکستان کو ایسا ملک بنانا تھا کہ دنیا متاثر ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اس خواب سے بہت دور نکل گئے، لوگ مغرب کو نہیں جانتے، میں مغرب کو بہت بہتر سمجھتا ہوں، میں نے ہرفورم پر اسلامو فوبیا کی بات کی، مغرب اس لیے نہیں سمجھتا کہ دو وجوہات ہیں، دہشتگردی کو اسلام سے جوڑ دیا ہے، جس پرہمارے ممالک میں اس کا ردعمل نہیں آیا، ہمیں ان کو بتانا چاہئے تھا کہ دہشتگردی اورانتہاپسندی کادین اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، انسانی معاشروں میں کچھ لوگ ماڈریٹ کچھ نہیں ہوتے۔
ایک موقع ایسا آیا جب مغرب نے کہا کہ خودکش حملے اسلام کی وجہ سے ہوئے، دنیا کی مسلم لیڈرشپ نے اسلام کے بارے پھیلنے والی منفی پروپیگنڈے کو کبھی کاؤنٹر نہیں کیا۔جب نائن الیون سے پہلے بھی سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نے خودکش حملے کیے، اس سے پہلے غلطی ہوئی جب سلمان رشدی نے کتاب لکھی اور فتنہ کیا، میں جب پہلی بار برطانیہ گیا نعوذباللہ انہوں نے گستاخانہ خاکے بنائے۔
ہمیں ان کو سمجھانا چاہیے تھا کہ ہمارا پیارے رسول ﷺ سے کس طرح عشق اور پیار ہے۔ لیکن کسی نے ایسا نہیں کیا،یہ فتنہ جس کو پتا تھا مسلمان ردعمل دیں گے، جس کی آڑ میں ان کو اسلاموفوبیا کا موقع مل گیا۔ مغرب میں اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑی پریشانی اور تکلیف کا سامنا ہے، میں نے آتے ہی اوآئی سی اور اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھایا، میں نے مسلم امہ کے لیڈرز کو خطوط بھی لکھے۔
یہودی منظم ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ کوئی مغرب میں یہودیوں کیخلاف بات کرے،ہولوکاسٹ پراگر کوئی بات کرے تو جیل بھیج دیا جاتا ہے، انشاء اللہ میں مسلسل پوری کوشش کروں گا، مسلم امہ اور مغربی سربراہان کو جب بھی ملتا ہوں ان کے سامنے بھی مسئلہ اٹھاتا ہوں کہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے اصولوں پر جو بھی چلے گا اللہ اس کو کامیاب بنائے گا، ریاست مدینہ میں قانون کی بالادستی تھی، انسانیت کا نظام تھا، ایک غریب آدمی کی ریاست پوری طرح بنیادی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔مغرب میں تین تین زبانوں میں نصاب نہیں، حکومت کو ان کواعلیٰ تعلیم دیتی ہے جس سے وہ بچہ آگے بڑھتا ہے۔مغرب میں فلاحی ریاست کا تصور ریاست مدینہ سے لیا ہے۔