ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے بلاول بھٹو کو پلیٹ فارم دے دیاوہ تو پنجاب میں ایک جلسی بھی نہیں کر سکتا تھا
لاہور : پی ڈی ایم اتحاد میں پیپلز پارٹی اور ان لیگ کے ہاتھ ملانے پر بہت سارے لوگوں نے اعتراض کیا تھا اس حوالے سے ان کی منطق یہ تھی کہ یہ ماضی کی حریف جماعتیں آج بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں اور وقتی مفاد کی خاطر یہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام ضرور رہی ہیں تاہم لمبے عرصے کے لیے ان کا ایک ساتھ سفر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
اور آخر میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے ہاتھ چھڑانا شروع کر دیا۔ اور استعفوں کا بہانہ بنا کر دوری اختیار کر لی ہے۔اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے سینئرصحافی عارف حمید بھٹی نے کہاکہ مریم نواز نے اپنی پارٹی میٹنگز اور کارنر میٹنگز میں یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ان سے بڑی غلطی ہو گئی ہے۔
لاڑکانہ جانا اور پیپلز پارٹی کے سارے گناہ معاف کرنا بھی ان کی غلطی ہے۔عارف حمید بھٹی نے کہاکہ مریم نواز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے بلاول کو پنجاب میں متعارف کروادیا ہے وہ تو پنجاب میں ایک جلسی بھی نہیں کر سکتا تھااور ا سکے پاس کونسلر بنوانے کے لیے بھی لوگ نہیں تھے جبکہ ہم نے بڑے بڑے جلسے کر کے اسے پنجاب میں پلیٹ فارم دیا اور وہ لوگوں کو موبلائز کرنے میں بازی لے گیا۔
مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہاتھ نہ ملاتے تو مستقبل قریب میں پیپلز پارٹی کو پنجاب سے لوگ اکٹھے کرنے اور اپنے نمائندے لینے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔لہٰذ اانہی نظریات کی بناپر مریم نواز نے پیپلز پارٹی سے بھی دوری اختیار کر رلی ہے اور خاص طور پر استعفوں والی بات کو لے کر دونوں جماعتوں کے درمیان دوری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان دونوں بڑی جماعتوں کو پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔کیونکہ پیپلز پارٹی کے پیچھے ہٹنے کے بعد سے پی ڈی ایم اتحاد کمزور پڑ گیا ہے اور بظاہر تو لانگ مارچ بھی کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہاہے تاہم یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر حکومت کا تختہ گرانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔