کورونا وائرس کے علاج میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز برتا گیا، سروے
کیلفورنیا: ایک حالیہ سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس کے علاج کے دوران سیاہ فام افراد کے ساتھ نسلی تعصب برتا گیا۔
اس بات کا انکشاف صحت عامہ کی معلومات فراہم کرنے والی امریکا کی طبی ویب سائٹ’ ہیلتھ لائن‘ کی جانب سے ہونے سروے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے مطابق کورونا وائرس کے علاج میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز برتا گیا۔
اس سروے میں گزشتہ سال فروری میں 1533 بالغ امریکیوں اور پھر دسمبر 2020ء میں 1577 بالغ امریکیوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا، اس ڈیٹا کا موازنہ کرنے کے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ سفید فام افراد کی مجموعی صحت پیوپل آف کلر( یہ اصطلاح ایسے افراد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کی رنگت سفید فام نہ ہو) کی نسبت بہترین اور بہت اچھی کے زمرے میں تھی۔
جب کہ کووڈ-19 نے پیوپل آف کلر(رنگ دار افراد) کی جسمانی اور دماغی صحت پر کافی برے اثرات مرتب کیے۔ اس سروے میں کورونا وبا کے دوران ہیلتھ کیئر تک رسائی میں عدم مساوات کا بھی انکشاف ہوا جس کے مطابق عالمگیر وبا کے دوران ایشیائی، ہسپانوی اور سیاہ فام آبادی کو طبی ماہرین تک رسائی میں زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
سروے کے اعداد و شمار کے مطابق 22 فیصد ایشیائی، 20 فیصد ہسپانوی، 17 فیصد افریقی امریکی اور 16 فیصد سفید فام افراد کو اور ڈاکٹر اور علاج تک عدم رسائی رہی۔
امریکی ریاست ٹیکساس کی طبی محقق ڈاکٹر مچل اوگن وولی کا کہنا ہے کہ سیاہ اور سفید فام کمیونیٹیز الگ الگ رہتی ہیں اور سیاہ فاموں کو ہمیشہ سے کم وسائل ملتے ہیں لہذا وبا کے دوران یہ فرق نمایاں ہوا۔ مثال کے طور پر براؤن اور سیاہ فام افراد کے لیے اسپتال ریاست کے غریب علاقوں میں بنائے گئے ہیں اور ان پر خرچہ بھی نہیں کیا جاتا، فنڈز کی وجہ سے وہاں جدت بھی کم ہے۔
اس سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایشیائی نژاد امریکیوں میں ذہنی تناؤ کی شرح زیادہ ہے کیوں کہ کورونا وبا کے آغازمیں ایشیائی باشندوں کواس وبا کے پھیلانے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے نسلی تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔
اس عالمگیر وبا کے دوران رنگ دار افراد میں انزائٹی اور ذہنی تناؤ میں اضافہ سفید فام امریکیوں کی نسبت زیادہ ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق 75 فیصد ایشیائی، 72 فیصد ہسپانوی، 68 فیصد سفید فام افراد درج بالا دونوں طبی مسائل پائے گئے۔