’یہاں بائیڈن کا کوئی انتظار نہیں کر رہا‘ پاکستان نے امریکہ پر واضح کردیا
اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ امریکی صدرجوبائیڈن اگر وزیراعظم عمران خان سے بات نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں یہاں بائیڈن کا کوئی انتظار نہیں کررہا۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا امریکہ سے تجارت سمیت دوطرفہ تعلقات پر بات ہوگی لیکن یہ بات چیت صرف افغانستان تک محدود نہیں ہونی چاہیئے اور اگرصرف الزامات لگانے ہیں اور اڈوں کی بات ہی کرنی ہے تو وقت ضائع نہ کریں، گڈ لگ بائیڈن۔
ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے، تمام سرحدوں سے اس کے خلاف منصوبہ بندی، حمایت اور اسپانسر پر مبنی دہشت گردی مسلط کی گئی جو بدقسمتی سے آج بھی ایک حقیقت ہے ، قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف نے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 16ویں اجلاس سے بھی خطاب کیا ،
جہاں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جڑیں اور دہشت گرد ہمارے ملک اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مستقل طور پر فعال رہتے ہیں لیکن عالمی سطح پر خود کو دہشت گردی کے خلاف تعاون کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں ، سب سے بڑا چیلنج دراصل افغانستان میں امن کے حصول میں ناکامی ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان بطور ملک تاریخی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
دوسری طرف اڈے دینے سے انکار کے بعد وزیراعظم عمران خان نے امریکہ پر ایک اور طنزیہ وار کرتے ہوئے کہا کہ طاقتور امریکا 20 برس میں افغانستان کے اندر سے جنگ نہ جیت سکا تو پاکستان میں اڈوں سے یہ کیسے ممکن ہے ؟امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تا کہ امریکا کو افغانستان کے خلاف اڈے دئیے تو پاکستان پھر دہشتگردوں کا ہدف بنے گا ، پاکستان افغان عوام کے فیصلے سے بننے والی حکومت کی تائید کرے گا ، پاکستان افغانسان میں کسی بھی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا ، ماضی میں ایک دھڑے کی حمایت سے پاکستان نے غلطی کی جسے دہرایا نہیں جائے گا۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کی زمین سے افغانستان کیخلاف کاروائی کی اجازت نہیں دیں گے، امریکا کے امن میں شراکت دار ہیں جنگ میں نہیں، اب کسی قسم کی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، اگر طالبان افغانستان کو مکمل فتح کریں گے تو بہت خون خرابہ ہوگا ، امریکا کو سیاسی تصفیہ کرنا چاہیے ، پاکستان کا جوہری پروگرام صرف ملکی دفاع کیلئے ہے، امن چاہتے ہیں محاذآرائی نہیں چاہتے، اب کسی قسم کی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، بھارت سے ہماری تین جنگیں ہوچکی ہیں، جوہری ہتھیاروں کیخلاف ہوں ہمارے ہتھیار دفاع کیلئے ہیں۔