دور جدید کی” صحافت“
کسی بھی ملک کے نظام کو چلانے کے لئے 1 ایگزیکٹو 2 عدلیہ 3 فوج 4 صحافت یہ چار ستونوں پر ریاست قائم ہوتی ہے جس میں ستون 4 صحافت جو عبادت بھی ہے کا اہم کردار ہوتا ہے صحافت کی بات کی جائے تو انسان ازل سے ہی حالات سے با خبر رہنے کا خواہشمند رہا ہے انسان کی خواہش مختلف ادوار میں پوری ہوتی رہی ہیں شروع سے تحریریں پتھروں اور ہڈیوں پر لکھی جاتی تھی پھر معاملہ درختوں کی چھال اور چمڑے کی طرف بڑھا زمانے نے ترقی کی تو کاغذ اور پریس وجود میں آیا جس کے بعد صحافت نے بے مثال ترقی کی صحافت کسی بھی معاشرے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں عوام میں سماجی سیاسی اور اخلاقی شعور بیدار کرنا نیک رحجانات کو پروان چڑھانا صالح معاشرے کی تشکیل کرنا۔جذبہ ہمدردی رواداری الفت و محبت کو فروغ دینا عوامی مشکلات و مسائل کی آئینہ داری کرنا ارباب صحافت کا بنیادی فریضہ ہے مفادات سے پاک صحافت ہی ایک ترقی پذیر معاشرے کی ضامن ہوتی ہے۔صحافت سماجی خدمت ہے اس لئے صحافت کو معاشرے کی تیسری آنکھ بھی مانا جاتا ہے .
تاریخ گواہ ہے کہ اخبارات کی آزادی نے حکومتیں قائم بھی کی اور کئی حکومتوں کو جڑوںسے اکھاڑ پھینکا ہے۔مشہور مورخ جی ایچ ویلز نے کہا کہ روم کی طاقت ور امپائر بلڈنگ اس وجہ سے بھی دیر پا قائم نہ رہ سکی کہ اس وقت اخبارات عام نہ تھے۔مشہور فاتح نپولین بونا پارٹ کا قول پریس کے حوالے سے ہے کہ تین مخالف اخباروں سے ایک ہزار بندوقوں سے بھی زیادہ خوف کھانا چاہیے۔اگر برصغیر کا ذکر کریں تو قیام پاکستان کی تاریخ میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کی خدمات کو کون بھول سکتا ہے جنہوں نے ذات کی قربانی دے کر حرمت قلم کا پرچم بلند رکھا۔پاکستان کی آزادی کے بعد ملک میں کئی حکومتیں آئیں مارشل لاءکے نظام نے جہاں ملک کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے وہاں پریس کی آزادی میں بھی کئی نشیب و فراز آئے صحافت کی آزادی پلیٹ میں تو رکھ کر نہ دی گئی اس کے لئے بے مثال قربانیاں دینا پڑیں۔
اس کے برعکس دور حاضر کی صحافت کو دیکھا جائے تو قحط الرجال ہے موجود دور میں ویسے تو صحافت ٹکے ٹوکری ہو گئی ہے صحافت۔بد قسمتی سے بہت سے ایسے مفاد پرست لوگوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا ہے جو صحافت کی الف سے ب تک کے واقف نہیں جن میں دینی اور اخلاقی اہلیت ہی نہیں ہے۔ آج کل تو ایسے ایسے اتائی لوگ بھی میدان صحافت میں آگئے ہیں جن کی آنکھوں پر جہالت کے کالے چشمے لگے ہوئے ہیں جن کا سچ کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں مگر جھوٹ کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے لفظی جنگ لڑنا جن کا محبوب مشغلہ ہے جو محض واہ واہ سمیٹنے کی خاطر خوبصورت لفظوں کو بدتمیزی اور بداخلاقی کی چادر میں لپیٹ کر ایسے پیش کرتے ہیں جیسے ان سے بڑھ کر سچا انسان اس روئے زمین پرپیدا ہی نہیں ہوا ۔ویسے صحافی تو مجموعی طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا پر کچھ لوگ غیر جانبداری کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مختلف جماعتوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں جو حق بات کرنے کی بجائے مخالف جماعت پر الزامات لگانا اور اپنی جماعت کے تمام عیوب کو چھپانا ان کا وطیرہ ہوتا ہے ایسے صحافیوں کی وجہ سے آج صحافت منہ چھپائے پر پھر رہی ہے ایک زمانہ تھا جب صحافت سے منسلک لوگوں کو پلکوں پر بٹھایا جاتا تھا عوام انہیں اپنا مسیحا سمجھتی تھی تاریخ گواہ ہے جب تک صحافت میں قابل اور اہل لوگ موجود تھے یہ پیشہ باوقار سمجھا جاتا تھا اب سوچنے کا مقام ہے کہ شعبہ صحافت جو کانٹوں کی سیج سمجھا جاتا تھا اب اس میں ایسی کیا کشش پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہو رہے ہیں شاید اسے میڈیا مالکان کی کارڈ لوٹ سیل کا نتیجہ قرار دیں تو غلط نہ ہوگا زیادہ بولی لگائیں اور جلدی صحافی بنیں اور جی بھر کر جھوٹ بولیں اور جس کا جی چاہے عزت اچھال دیں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں کوئی پوچھنے والا نہیں یہاں تک کہ دینی تعلیم کی بھی کوئی قید نہیں افسوس کا مقام ہے.
مالکان شاید یہ نہیں جانتے کہ چند روپوں کی خاطر وہ قلم کی حرمت کیسے نا اہلوں کے سپرد کر رہے ہیں جن کی نہ تو کوئی تعلیم ہے اور نہ ہی صحافت سے دور دور تک کوئی واسطہ بس کارڈ جیب میں رکھ کر صحافت کا رعب جھاڑنا ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے میں نے ایسے ایسے صحافی بھی دیکھے ہیں جن کے پاس بڑے بڑے میڈیا گروپ کے کارڈ ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ اردو لکھنا تو دور کی بات اردو پڑھنا بھی نہیں آتی اور پریس کلب کے ممبر بھی ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ یہ ہر شخص کی مدح سرائی میں اپنے قلم کی حرمت کو پامال کرتے رہتے ہیں یہ تو صحافت کے منہ پر طمانچہ مارنے والی بات ہے خدارا صحافت کے معیار کو سمجھا جائے صحافت جیسے مقدس پیشے کو بد نام نہ کریں صحافت کی بھی قواعد و ضوابط ہوتے ہیں صحافی تنظیموں کو چاہیے کہ ایسے نام نہاد بد اخلاق ضمیر فروش اور جعلی صحافیوں کا جلد از جلد مکو ٹھپ دیں ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ایسے ازکار رفتہ صحافی انصاف کے قلم کو سچ لکھنے کی بجائے محض شلوار میں ناڑا ڈالنے کے لیے استعمال کیا کریں گے۔
برے ہو گئے حالات صحافیوں کے
دن پھرے ہیں فقط انصافیوں کے