پاکستان میں بچوں اور عورتوں کے استحصال کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی خوب صورتی کے لیے انسان چرند پرند درخت زمین ،آسمان اورانواع و اقسا م کی مخلوقات پیدا کیں اور اس میں ہر چیز کے جوڑے بنائے تا کہ ان کی نسلیں آگے بڑھتی رہیں مر د و عورت کو ایک دوسرے لے لازم و ملزوم بنایا ۔ اس کائنات کو سب سے زیادہ نقصان انسان نے ہی پہنچایا ہے ، اورانسان کو ہی اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت بخشی ہے کہ دکھی انسانیت کے لئے مداوا بنے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان نے جب بھی فطرت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جزا وسزا کا فیصلہ بھی مقدم رکھا ہے جس کی سب سے بڑ ی مثال قوم لوط کی ہے کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرد کا مرد کے ساتھ جنسی فعل کو اپنایا تو اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر اپنا عذاب نازل فرمایا ۔
جیسے جیسے انسانی معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہو تا گیا اس کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ بھی گراوٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ قانون پر عملدر آمد نہ کرنا معاشرے میں رہنے والوں لوگوں کے حقوق کو سلب کر نا شامل ہے۔ مغربی معاشرے کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اسلامی معاشرے نے بھی اب اپنی راہیں مغربی معاشرہ کے ساتھ استوار کر لی ہیں۔ اسلام نے عورتوں اور بچوں کو بہت زیادہ عزت اور حقوق عطا کر رکھے ہیں لیکن مادر پدر آزاد نسل ان پابندیوں سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی ہے جس کی وجہ سے آئے روز عورتوں اور بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات بڑھتے جا ر رہے ہیں ۔
اور یہ دونوں معاشر ے کے سب سے کمزور طبقات شمار کئے جاتے ہیں ۔پاکستان میں ان کی حالت ِ زار پر بہت سے قانون تو بنائے گئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہورہا ہے بچوں اور عورتوں سے مزدوری ،اینٹوں کے بھٹوں کی غلامی،جسمانی سزا، سمگلنگ ، جسم فروشی ، جنسی استحصال اور بچوں کے ساتھ بہت سے دیگر جرائم ریاست کی عدم توجہ کے ساتھ ساتھ قوانین کے ناقص نفاذکی وجہ سے ان جرائم میںخاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے ۔
بچوں کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لئے کوئی قومی پالیسی نہ بنائی گئی ہے۔متاثرہ بچوں کو قانونی اور انتظامی نظام میں خرابی اور متعلقہ نظام میں لاپرواہی برتی جارہی ہے ۔ملک میں حفاظتی انتظامات کی کمی کی وجہ سے بچوں کے خلاف تشدد میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
بچوں کے لئے کوئی علیحدہ عدالتی نظام موجود نہ ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔جب تک ان خرابیوں کا ازالہ نہ کیا گیا تو ملک میں آئندہ نسلوں سے ہم کسی اچھے سلوک کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیاہے ۔ان ظالموں کو اسلامی قوانین کے مطابق سرعام سنگسار کرنے جیسی ایک دو مثالیں پیش کر کے ان مکروہ واقعات کو روکا جاسکتا ہے ۔پارلیمنٹ میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات روکنے کے لئے خصوصی قانون سازی اور اس پر عملدرآمدکو یقینی بنانا از حد ضروری ہے ۔
اس بابت ہمارے حالیہ نس بندی کر دئیے جانے والی سزا کو معاشرہ کے بااثر سیاسی عمائدین کی مداخلت سے مضروبین کو صلح پر زبردستی مجبور کردیا جاتاہے کسی کو ڈرا دھمکا کر کسی کو معمولی رقم کا لالچ دے کر اور کہیں معاشرے میں بدنامی جیسی دھمکیاں دے کر چپ کروا دیا جاتاہے ۔پاکستان میں آئے روز بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں جبکہ بہت سے واقعات کی رپورٹ بھی نہیں کی جاتی ہے ۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنی والی ایک غیر سرکاری این جی او ساحل کے مطابق پاکستان میں یومیہ 12 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے ۔ صوبہ پنجاب میں سال 2020 ءمیں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے تقریباً1337 کی رجسٹرڈ ہوئے اور بچوں سے زیادتی کے سب سے زیادہ کیس لاہور شہر میں رجسٹرڈ ہوئے ۔
جب کہیں ایسا واقعہ رونما ہوتو خفیہ ایجنسیوں سے اس واردات کی انکوائری کروائی جائے اور اس معاملہ کو ختم کروانے میں ملوث ہر چھوٹے بڑے سیاسی،مذہبی اور شدت پسند افراد کو اس میں قرارواقعی سزادے کر ان کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے جو باتیں زیادہ تر دیکھنے میں آئی ہیں ان کے مطابق زیادتی کرنے والے افراد یا تو ان کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں یا پھر قریبی محلہ دار یا استاد یہ وہ لوگ ہیں جو عادی مجرم جنسی طور پر فرسٹریشن یا کسی ذہنی مسئلے کا شکار یا پھر فحش مواد کے دلداہ ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادتی جیسے گھناﺅنا فعل انجام دینے بھی باز نہیں آتے ہیںاس کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کے ذمہ داروں کو بمطابق اسلامی قوانین کے مطابق سزا ئیں تجویز کی جائیں اور ان پر عملدرآمد بھی کیا جائے تو معاشرہ سے اس ناسور کو کسی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی قوانین میں ہر جرم کی جامع تفصیل اور سزا و جز اموجود ہے ۔ہماری ناکامی کی اصل وجہ ہماری دین سے دوری ہے ۔انٹرنیٹ پر موجود فحش اور نازیبا سائیٹس کو فی الفور بند کروانا ضروری ہے ۔کیونکہ حالیہ سروے کے مطابق سب سے زیادہ فحش اور نازیبا سائیٹس دیکھنے میں اسلامی ممالک سب سے آگے ہیں جس کی وجہ سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ناقابل یقین حد تک اضافہ دیکھا جارہا ہے۔PTAکو چاہیے کہ نہ صرف ان فحش اور نازیبا سائٹس کو بلاک کرے بلکہ ایسا مواد ڈاﺅن کرنے ، اپ لوڈ کرنے اور دیکھنے والے افرادکا ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچائے اور وہ ادارے انہیں قرار واقعی سزادیں تو اس سے بھی جنسی زیادتی کے واقعات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ چوکوں اور چوراہوں پر موجود گداگر عورتوں اور بچوں سے بھیگ منگوانے اور جسم فروشی جیسا مکروہ دھندہ کروانے والے ،تعلمی اداروں کے قریب سگریٹ ،گٹکا، منشیات فروشی میں ملوث جرائم پیشہ عناصر کا محاسبہ کرنا بھی از حد ضروری ہے ۔جب تک ہم ان تمام عناصر کے مکروہ فعل سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہےں گے تو دن بدن تنزلی ہمارا مقدر بنتی رہے گی ۔
بالخصوص معاشرہ کے پسے ہوئے طبقہ کے بچے جو ہوٹلوں،دوکانوں، فیکٹریوں اور بھٹہ خشت پرکام کرتے ہیں انتظامیہ کاغذی کارروائی کے ذریعے تو اپنے اپنے علاقہ کو اس سے پا ک صاف ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔لیبر ڈیپارٹمنٹ اس بابت بالکل خاموش دکھائی دیتاہے۔ہرذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ اس مشن پر کام کریں تو اس ناسور کو کافی حد تک کم کیا جاسکتاہے۔لیبر ڈیپارٹمنٹ اور متعلقہ اداروں کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ کم عمر بچے جو کہ دوکانوں ، ہوٹلوں، فیکٹریوں اور بھٹہ خشت پر یا جہاں کہیں بھی مزدوری کررہے ہیں یا جو عورتیں اور بچے چوکوں اور چوراہوں پر سگنلز پر گداگری کر رہے ہیں ان تما م کا ڈیٹا اکٹھا کریں،ان کی تعلیم وتربیت سرکاری سطح پر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہنر مند ،اور باعزت روزگار فراہم کریں
، ان کی مالی معاونت کریں تاکہ انہیں معاشرہ کا مفید شہری بنا یا جاسکے ۔اور جہاں کہیں بچوں اور عورتوں کو اغواءکرکے ان سے گداگری اور جسم فروشی کروانے کا ثابت ہونے والے گروہوں کے سرغناﺅں کو عبرت ناک سزا دلوائیں ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں ان کی اچھی تعلیم و تربیت کریں۔ اس کی روز مرہ زندگی کے نشیب و فراز کا مشاہدہ کریں اور اگر اس میں کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو اس کا سد باب کریں۔
اس سلسلے میں پنجاب حکومت کی ترجمان سارہ احمد چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہی میںبچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی استحصال ، بچوں اور عورتوں سے مزدوری ،اینٹوں کے بھٹوں کی غلامی،جسمانی سزا، سمگلنگ ، جسم فروشی ، جیسے گھناﺅنے جرائم کے خاتمہ کے لئے کافی متحرک دکھائی دے رہی ہےں ۔ اور اس پر کافی قانون سازی ہو رہی ہے ۔ہر ضلع اور ڈویژن کی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو دفاتر قائم کر کے وہاں فوکل پرسن تعینات کئے گئے ہیںجو بچوں کے حقوق کے لئے کام کریں گے۔ لیکن یہ سب ناکافی ہے جب تک ہم سب اپنی ذمہ داری نہ لیں ادارے اپنے عزائم میں کامیاب نہیںہوسکتے ہیں ہر آدمی اپنے گردونواح پر نظر دوڑائے جہاں کہیں جنسی زیادتی کے شواہد دیکھے،چائلڈ لیبر دیکھے ،اس کی شکایت پر اداروں کو اس کا نام صیغہ راز میں رکھ کر ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا ئیں دی جائیں تو پھر ہم کسی حد تک بچوں اور عورتوں کے حقوق پورے کروانے میںکامیاب ہوسکتے ہیں۔