طالبان کا 48گھنٹوں میں چار اہم صوبوں پر قبضہ‘جنرل دوستم کو عبرتناک شکست

کابل: افغانستان میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی شدید مرحلے میں داخل ہو گئی ہے طالبان نے 48 گھنٹوں میں چار صوبوں پر مکمل طور پر قبضہ کرکے اس تاثر کو ختم کر دیا کہ وہ امریکی فورسز کے جاری رواں ماہ کے اواخر میں اعلان شدہ انخلا تک صوبائی مراکز اور بڑے شہروں پر قبضہ نہیں کریں گے.

طالبان نے سب سے پہلے ایران سے متصل افغانستان کے جنوبی صوبہ نمروز کے مرکزی شہر زرنج پر بغیر کسی خاص مزاحمت کا سامنا کیے قبضہ کر لیا اطلاعات کے مطابق سو سے زائد افغان فورسز فوجی گاڑیوں میں سرحد پار ایران طالبان کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لیے منتقل ہو گئے نمروز کے مرکز پر طالبان کے یوں بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ نے افغانستان کے اندر اس صوبہ کی قیادت کے متعلق کئی سوالوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے.

زرنج پر طالبان کے قبضہ کے بعد ہفتہ کی شب اس صوبہ کے لیے طالبان کے نامزد گورنر اور یہاں پر طالبان کی جنگی قیادت کرنے والے کمانڈر مولوی عبدالخالق عرف مولوی عابد کو بھی امریکی ڈرون نے نشانہ بنا کر قتل کیا جو یہاں پر طالبان کے لئے ایک اہم نقصان ہے.

نمروز سے بھی زیادہ حیران کن شمال میں افغان فیلڈ مارشل جنرل ‘افغان فوج کے سابق سربراہ اور نائب صدر عبدالرشید دوستم جن کی ذاتی دو سے تین ہزار افراد پر مشتمل نجی ملیشیا ہے مرکز صوبہ جوزجان اور اس کے مرکزی شہر شبرغان پر قبضہ کیا طالبان نے شبرغان میں جنرل دوستم کی رہائش اور مراکز پر قبضہ کر کے وسیع مقدار میں اسلحہ اور دیگر وسائل پر قبضہ کر لیا ہے جنرل دوستم پر 2001میں افغانستان میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد اپنی نجی جیل میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کو کنٹرینروں میں بند کرکے اور تہہ خانے میں قائم ایک قیدخانے میں پانی بھر کر قیدیوں کو ڈبوکرمارنے کے الزامات ہیں.

طالبان نے صوبہ قندوز کے صوبائی مرکز پر قبضہ کر کے اس صوبہ کو بھی اپنی مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے طالبان نے قندوز کے مرکز پر چھ سال پہلے بھی قبضہ بھی کیا تھا مگر امریکی فوج کے فضائی حملوں کے بعد انہوں نے صوبے کا قبضہ چھوڑدیا تھا . طالبان نے قندوز شہر میں واقع بالا حصار نامی بڑے فوجی مرکز پر بھی قبضہ کیا قندوز وہ تاریخی صوبہ ہے کہ جو شمال میں طالبان کا آخری گڑھ تھا جہاں پر افغانستان پر امریکہ حملہ کے بعد طالبان قیادت نے القاعدہ، اپنے پاکستانی اور دیگر غیر ملکی جہادی ساتھیوں سمیت ہزاروں جنگجوں کو جنرل دوستم کو اسے وعدے کے ساتھ تسلیم کیا تھا کہ وہ ان کو پرامن راستہ دیں گے مگر جنرل دوستم ان کو کنٹینروں میں بھر کر جوزجان لے کر آئے جس میں طالبان اور اس کے حامیوں سمیت سینکڑوں جنگجو قتل ہوگئے.

طالبان نے سال 2010 میں شمال میں سب سے پہلے اسی صوبہ سے اپنی قوت کا آغاز کیا قندوز کی مثال افغانستان کے شمالی صوبوں میں قلب کی ہے اور یہاں پر قبضہ کرنے سے طالبان کو دیگر صوبوں پر قبضہ کرنے میں آسانی رہے گی چوتھا صوبائی مرکز جس پر طالبان نے اتوار کو قبضہ کیا وہ صوبہ تخار ہے جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شمالی اتحاد کا مرکزتھا اور امریکا اور نیٹواتحادیوں نے یہاں سے ہی افغانستان کی ایک الگ حکومت احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں قائم کی تھی .
وادی پنج شیر کے علاوہ احمد شاہ مسعود نے تخار کے ضلع فرخار میں طالبان میں اپنا مرکز بنایا تھا جہاں سے طالبان کے خلاف لڑائی کی تمام منصوبہ بندی کی جاتی تھی تخار پر مکمل قبضہ سے طالبان نے اب صوبہ پنج شیر کے گرد گھیرا ڈالا ہے کیونکہ تخار ہی پنچ شیر کا دروازہ ہے قندوز، جوزجان اور تخار پر قبضہ کرنے کے بعد شمال کے دیگر صوبے خصوصا بلخ جس کا صوبائی مرکز تاریخی مزار شریف شہر ہے وہ بھی طالبان کے گھیرے میں آچکے ہیں.

اب طالبان شمالی اتحاد کے ایک اور بڑے مرکزاور اہم ترین شہر مزار شریف کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں اور شہر کے متعددنواحی علاقے طالبان کے قبضے میں آچکے ہیں افغان اور امریکی ذرائع ابلاغ تسلیم کررہے ہیں کہ مزارشریف پر آنے والے دنوں میں طالبان کا قبضہ یقینی نظرآرہا ہے. ادھر برطانوی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ ہلمندکے مرکزی شہر لشکرگاہ پر امریکا کی شدید بمباری سے شہر میں ہسپتالوں، یونیورسٹیز اور مساجد سمیت کئی دیگر عوامی مقامات نشانہ بنے ہیں لشکر گاہ میں آدھے سے زیادہ شہر پر طالبان نے پچھلے ہفتہ سے قبضہ کر لیا ہے اور حکومتی فورسز فقط چار پانچ سرکاری عمارتوں تک محدود ہیں .

امریکہ کے اگست کے آخر تک ملک میں اپنا فوجی مشن ختم کرنے کے فیصلے کے بعد حالیہ دنوں میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے امریکہ کے کابل میں سابق سفیر ریان سی کروکر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے ریان سی کہ کروکر جوکہ پاکستان میں بھی امریکا کے سفیر رہ چکے ہیں نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے تیزی سے پوری ملک پر قبضے کی بجائے ملک میں طویل خانہ جنگی کا زیادہ امکان ہے وہ بہت ہوشیار ہیں اور وہ کابل پر زیادہ حملے بھی نہیں کر رہے.

ریان سی کروکر نے بتایاکہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا ایک مقصد خوف اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں وہ بہترین طریقے سے کامیاب رہے ہیں انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ایسے حالات نہیں دیکھ رہے جس میں امریکی فوجیوں کو افغانستان واپس بھیجنا پڑے ادھر امریکی صدر بائیڈن نے یہ واضح کیا ہے ہم انخلا کر رہے ہیں افغانستان میں واپس نہیں آ رہے.

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے