پاکستانی معاشرہ میں میثاق ِمدینہ کی اہمیت وضرورت

پاکستانی معاشرہ میں میثاق ِمدینہ کی اہمیت وضرورت

تحریر:ڈاکٹر شمشاد اختر

میثاق ِ مدینہ کی اہمیت محض تاریخ اسلام میں ہی جاوداں نہیں بلکہ پوری تاریخ انسانیت ایسی روشن مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ میثاق مدینہ محض ایک روایتی معاہدہ نہ تھا بلکہ یہ ایک سماجی، دفاعی، فلاحی اور عوامی میثاق تھا۔ اس تاریخی میثاق نے مدینہ کے شہریوں کو نئی دنیا سے متعارف کرایا۔ ہر طرف امن و امان، خوشحالی اور بھائی چارہ کی باد بہار چلتی دکھائی دے رہی تھی۔اس لحاظ سے میثاق مدینہ نہ صرف اسلامی ریاست کی بنیاد بنا بلکہ مصطفوی انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔ اگر ہم ہجرت مدینہ سے قبل یثرب کے ساتھ موجودہ پاکستانی معاشرے کا موازنہ کریں تو بہت سے مشترکہ حقائق دکھائی دیتے ہیں۔

(۱) فکری وحدت کا فقدان: جب ہم پاکستانی معاشرے کا گہری نظر سے موازنہ کرتے ہیں تو اس کا شیرازہ بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اس میں نہ قومیت نظر آتی ہے اور نہ جمہوریت دکھائی دیتی ہے ۔یہاں نہ تو اتحاد امت نظر آتا ہے اور نہ ہی مذہبی ہم آہنگی نظرآتی ہے۔ اس میں نہ توبین المذاہب رواداری کا کوئی عکس دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی دستور کی عملی شکل اور اطلاق نظر آتا ہے۔ مملکت خدا داد پاکستان میں نہ تو فرائض کی ادائیگی کا التزام ہے اور نہ ہی حقوق کے مساویانہ نظام کا انتظام۔ یہاں نہ تو معاشی کفالت کا انتظام ہے اور نہ ہی سماجی فلاح و بہبود کا کوئی مثالی ڈھانچہ موجود ہے۔ ہاں اگر ایسا ہے تو صرف دستور کی حد تک جو کہ تحریری طور پر کتابی شکل میں موجود ہے۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جب بطور گورنر جنرل حلف اٹھایا تو متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا: میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آپ پاکستان میں مغل بادشاہ جلال اکبر کو نافذ کریں ، جس کے اندر رواداری بھی تھی ، اخوت بھی تھی، بھائی چارہ بھی تھااور انسانیت کی خیر خواہی بھی تھی۔قائد اعظم ؒ نے اس کاجواب کچھ یوں دیا: مجھے کسی اکبر کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں پاکستان میں ریاست مدینہ کا وہ نظام نافذ کروں جو پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺنے چودہ سو سال قبل میثاق مدینہ کی صورت میں نافذ فرمایا تھا۔اندازہ کیجیے کہ قائد اعظم ؒ کا یہ خواب تھا جس کے تحت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نفاذ کی خاطر یہ خطہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔آج ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تو وہی صورتحال واضح ہوتی ہے جو مدینہ کی تاریخ میں جنگ بعاث کے موقع پر دکھائی دیتی تھی۔اس جنگ میں اوس اور خزرج دونوں قبائل کا بہت جانی نقصان ہوا ان کی افرادی قوت جاتی رہی اور وہ جلد ہی ہر شعبہ میں کمزور ہو گئے۔ آج پاکستانی قوم بھی اوس اور خزرج کی طرح اپنے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب باہمی لڑائیوں اور انتشار کا شکار ہو کراپنی جڑیں خود کھو کھلا کر رہی ہے۔ اس خطرناک صورتحال میں طاقت، قوت اور وقار حاصل کرنے کا راستہ صرف اتحاد و یگانگت ہے۔

(۲) متفقہ فکری قیادت کا فقدان: حضور ﷺ کی ہجرت مدینہ سے قبل یثر ب کی سر زمین کسی باقاعدہ دستور یا نظام نہ ہونے کی وجہ سے جہنم زار بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف بد امنی، خونریزی، افراتفری کا دور دورہ تھا۔ اس دور میں انصار مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج آبادتھے۔ دوسری طرف یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے جو پورے یثرب پر غالب تھے۔ کہنے کو وہاں برائے نام قبائلی نظام موجود تھامگر اس نظام کے اندر کسی انسان کی عزت، آبرو، جان و مال کی حفاظت اور اس کے مذہبی و روایتی رسم و رواج اور ثقافت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ یہ سب طبقات کسی مسیحا کی تلاش میں تھے جو وہاں امن و امان قائم کر سکے اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنا سکے اور ایسی قیادت کے متلاشی تھے جو ہر طرح کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی استحصال کے خاتمے کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہو۔انہوں نے ان روشن اور فلاحی حقائق پر متفقہ طور پر حضور ﷺ کو اپنا پیشوا تسلیم کیا اور آپ ﷺ کو بلا شرکت غیرے سربراہ ریاست منتخب کر لیا۔

پاکستان کی موجود صورتحال بھی ہم سے ایک متفقہ قیادت لانے کا تقاضا کرتی ہے جسے دین کا کامل شعور ہو نے کے ساتھ ساتھ عصری اور عالمی تقاضوں سے مکمل آگہی حاصل ہو۔ جس نے دنیا بھر کا مشاہداتی جائزہ لیا ہو اور اسے دنیا بھر میں امن، انسان دوستی، برداشت اور رواداری کا نمونہ سمجھا جاتا ہو۔ لہذا ہم سے وقت یہی تقاضا کر رہا ہے کہ ہم تمام وابستگیوں اور تعصبات کو بالا طاق رکھتے ہوئے ایسی متفقہ قیادت کو سامنے لائیں۔

(۳) مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کا حکم: اسلام ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کا حک دیتا ہے ۔میثاق مدینہ کے آرٹیکل نمبر ۶۲ میں لکھا ہوا ہے کہ: ”کسی ایمان والے کے لئے جو اس صحیفہ کے مندرجات کی تعمیل کا اقرار کر چکا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، یہ ہر گز جائز نہ ہو گا کہ وہ کسی قاتل یا مجرم کی مدد کرے یا اسے پناہ دے۔اور جو کسی ایسے شخص کی مدد کرے گا یا اسے پناہ دے گا تو روز قیامت اس پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو گا۔نہ اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور نہ کوئی بدلہ۔ اس ملک پاکستان میں زیادہ معاملات میں ایسے ہی ہو رہا ہے جیسے جنگل کا قانون ہے۔ جس کا جب جی چاہے مملکت خدا داد کی حرمت کو پامال کرکے چلتا بنے۔مگر یہاں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی شے نہیں ہے۔

موجودہ حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں میثاق مدینہ کی روشنی میں ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے میں رواداری اوربرداشت کے فروغ اور ہر ایک کو بنیادی ضروریات اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ پاکستانی معاشرے میں ایسی سیاسی جماعت کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو اس موجودہ سیاسی نظام کے مقابل نظام تیار کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہو اور جو اس ظالمانہ نظام کو للکارتی بھی ہو اور اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

admin