اغیار کی تقلیدباعث ِ فخریااحساسِ کمتری؟؟؟
تحریر۔۔عطیہ ربانی۔۔بیلجئم
میرے نزدیک نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے- بحیثیت ایک مسلمان نئے سال کو منانا چاہئیے یا نہیں اس کا اتنا علم نہیں- ہاں ایک دعا کہیں پڑھنے کو ملی کہ نئے سال کی آمد پر پڑھ لینی چاہئیے تو دسمبر کی آخری شب بھی پڑھ لی جاتی ہے اور ذی الحج کے اختتام پر بھی- ایک حدیث کے مطابق دعا کچھ یوں ہے؛
ترجمہ: اےاللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمن کی رضامندی اور شیطان کےبچاو کے ساتھ داخل فرما۔
اب جہاں تک حلال اور حرام کے فتوے کی ہے تو ہر بات میں یہ سب لے آنا— سمجھ سے باہر ہے- مغرب کے لوگ بہت سی باتوں میں مسلمانوں کے شکر گزار ہیں- کیونکہ رومن گنتی میں زیرو نہیں ہے- انہوں نے باہری دنیا سے جو گنتی سیکھی اس کا سہرا وہ سراسر مسلمانوں کے سر باندھتے ہیں- یورپی ممالک بہت سے مصالحہ جات سے واقف نہیں تھے- بہت سی زبانیں بولنا تو دور کی بات اپنی زبانوں سے ہٹ کر کوئی اور بھی بولی ہے یہ تک جانتے نہ تھے لیکن آہستہ آہستہ انہیں دنیا کی بہت سی زبانوں سے واقفیت حاصل ہوئی- اس کے لئیے بھی وہ مسلمانوں کو ہی سراہتے ہیں-
سب سے پہلے گنتی یورپی لوگوں کو عربیوں نے سکھائی- یہ بات بہت حیران کن تھی جب ہماری ایک فرانسیسی پروفیسر نے پوچھا کہ تجارت کے اصول کہان سے سیکھے گئے؟
ہماری دنیا کو باہری دنیا کا راستہ کس نے دکھایا؟
تمام مسلمان پروفیسر کا منہ دیکھتے رہے کہ کیا کہنا چاہتی ہے- پھر ایک سیاہ فام کانگو کے رہنے والے نے جواب دیا کہ“مسلمان—؟
بالکل، ایسا ہی ہے- پروفیسر نے تفصیل بیان کی کہ کیونکہ مسلمانوں کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت پیشہ تھے یہی وجہ ہے مسلمان قوم تجارت کو بہت پسند کرتی ہے- اپنا سامان تجارت دنیا کے مختلف کونوں تک پہنچاتے ہیں- مختلف زبانیں اسی وجہ سے سیکھ پاتے ہیں کہ سفر بہت ذیادہ کرتے ہیں- یوروپی اقوام نے بہت کچھ مسلمانوں سے سیکھا- (یہ اور بات ہے کہ ہم مسلمانوں نے وہ سب بھلا دیا، ذاتی رائے)-
اب جہاں تک بات ہے نئے سال کی تو ایک ہجری کیلنڈر ہے (عربی زبان:سَنة ہِج±ریّة یا التقویم الہجری) جس کا آغاز محرم سے ہوتا ہے-اگرچہ تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے یا یوں یو کہا جائے کہ عرصہ دراز سے ہی چلی آرہی تھی تو غلط نہ ہوگا بلکہ زمانہ قدیم سے ہی کچھ مہینے قدر و حرمت والے سمجھے جاتے تھے جیسے ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب-
سورة التوبہ ۳۶ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ مہینوں کی گنتی قران پاک میں بارہ ہے اور اسی حساب سے آسمان و زمین کو بھی پیدا کیا گیا اور قرآن کے مطابق بھی چار مہینوں کو مقدم قرار دیا گیا- گرچہ عرب میں مختلف کیلنڈر موجود تھے لیکن ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم سے ہی ہوتی تھی-
اسلامی کیلنڈر کا آغاز مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشوروں سے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں نبی کریم اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مطابق ترتیب دیا جائے- اگرچہ تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے یا یوں کہیے کہ عرصہ دراز سے ہی چلی آرہی تھی تو غلط نہ ہوگا بلکہ زمانہ قدیم سے ہی کچھ مہینے قدر و منزلت والے سمجھے جاتے تھے جیسے ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب-
سورة التوبہ ۳۶ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ مہینوں کی گنتی قران پاک میں بارہ ہے اور اسی حساب سے آسمان و زمین کو بھی پیدا کیا گیا اور قرآن کے مطابق بھی چار مہینوں کو مقدم قرار دیا گیا- گرچہ عرب میں مختلف کیلنڈر موجود تھے لیکن ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم سے ہی ہوتی تھی-
اسلامی کیلنڈر کا آغاز مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشوروں سے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں نبی کریم اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مطابق ترتیب دیا جائے- لیکن بعد ازاں باہمی مشورے سے طے پایا کہ مدینہ منورہ ہجرت کے واقعے پر کیلنڈر کی بنیاد رکھی جائے- مدینہ منورہ کی ہجرت کئیے جانے واقعے کو سامنے رکھ کر ہجری کیلنڈر ترتیب دیا گیا اور اس سے پہلے کی تمام تاریخوں کو صفر قرار دیا گیا-
ایک وہ کیلنڈر ہے جو جولئیس سیزر نے ترریب دیا تھا۔رومن کیلنڈر کا پہلا مہینہ مارچ تھا- اب اس کیلنڈر کا کوئی وجود نہیں- چینی کیلنڈر میں سال کا آغاز فروری سے ہوگا- کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی قبل مسیح میں چین کے ایک شہنشاہ ہنگڈی نے یہ کیلنڈر ترتیب دیا تھا-
حضرت عیسیٰ کے بعد سے عیسوی کیلنڈر ترتیب دیا گیا اور تمام تواریخ و واقعات کو قبل مسیح اور بعد مسیح کے حوالے سے لکھا جانے لگا- جو بھی واقعات عیسائیت سے پہلے ہوئے ان کو آج کی گنتی کے مطابق دنیا کی تارخ میں اتنے ہزار سال۔۔۔ نہیں لکھا جاتا بلکہ تاریخ کی گنتی کا آغاز ہی عیسوی سال سے کر دیا گیا اور باقی کے حالات و واقعات تاریخ میں عیسوی کیلنڈر میں اس پہلے کی تاریخون کو صفر کر دیا گیا، جیسے جولئیس سیزر کا کیلنڈر 46 برس قبل مسیح کہلانے لگا- حضرت موسیٰ کا دور 1600 قبل مسیح تھا- اسی طرح حضرت دا¶د کا دور 970– 931 قبل مسیح لکھا جاتا ہے-
یہی وجہ ہے کہ ہجری کیلنڈر یا چینی کیلنڈر کے مطابق اپنے اپنے علاقوں میں تواریخ طے نہیں ہوتیں- دیکھا جائے تو مسلمان اپنے تمام تہوار ہجری کیلنڈر کے مطابق ہی مناتے ہیں- اسی طرح چینی نئے سال کی تقریب دیکھنے کا اتفاق ہوا- بلکہ ویتنامی تقریب کی تیاری کہا جائے تو مناسب ہے- بہت جوش وخروش دیکھنے کو ملا- لیکن اس کے باوجود دنیا کا نظام عیسوی کیلنڈر نے سنبھالا ہوا ہے- جس کی بڑی وجہ تجارتی امور ہیں- لین دین، تجارت، غیر ملکی معاملات سب انگریزی کیلنڈر کے مطابق ہی طے ہوتے ہیں-
24 فروری 1582 کو پوپ گریگوری کے ذریعہ یہ کیلنڈر ترتیب دینے کا مقصد ایسٹر کو صحیح دن اور تاریخ کے مطابق منانا تھا کہ تمام چرچ اس دن کو درست تاریخ کے ساتھ ایک ہی روز منائیں جو کہ جولئیس سیزر کیلنڈر کے مطابق درست نہ تھا-
1582 سے 1752 کے دوران یوروپی ممالک نے بھی اس کیلنڈر کو اپنا لیا اور یہی نہیں بلکہ یورپی ممالک کی بنائی ہوئی کالونیاں بھی ان کو اپنانے پر مجبور ہوئیں کیونکہ تمام تر کاروبار زندگی کالونیاں بنانے والے یا ان خطوں پر قابض فرانسیسی اور انگریز قوم کے ہاتھ میں تھے- بخوشی اور بزور زبردستی اس پوپ گریگوری کے اس کیلنڈر کو اپنایا گیا- جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آج کے دور میں بین الاقوامی سطح پر کاروبار، اًمدو رفت، بینالاقوامی معاملات، تجارتی و سفارتی معاملات ایک کی تاریخ کے مطابق طے پاتے ہیں- کوئی اختلافی نقطہ کیلنڈر کے حوالے سے نہیں ہوتا- اگر یہ کہا جائے کہ پوپ گریگوری XIII کئیے تہوار کو صحیح منانے کی خاطر ترتیب دیا گیا کیلنڈر اب تجارتی بنیادوں پر قائم ہے اور بین ا لاقوامی معاملات کی خاطر دنیا بھر میں اپنا لیا گیا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نیا سال منانا چاہئیے یا نہیں- ناچیز کی ناقص رائے میں بہت سے اسلامی تہوار ہیں جن کو جوش و خروش سے منایا جائے تو باقی کسی تہوار کی ضرورت ہی نہیں- جیسے بہت سے مسلمان بھائی کے نزدیک عید تو بچوں اور عورتوں کا تہوار ہے تو وہ سو کر گزارتے ہیں اور نیو ائیر نائیٹ جاگ کر گزارنا سٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں-
رمضان کا پورا مہینہ ہی تہوار ہے- سحری اور افطار کے وقت جو جذبہ اور خوشی ہوتی ہے جانے وہ کسی شیمپین کی بوتل میں کیسے ڈھونڈتے ہیں متوالے – مغرب کی اندھی تقلید کے لئیے ان کے تہوار منانا ہی کیوں ضروری ہے یہ دیکھنا کیوں ضروری نہیں کہ انہیں لوگوں نے ہمارے اقدار کو کیسے اپنایا ہے- ریاضی کی کلاس میں بیٹھ جائیں تو پروفیسر بتاتے ہیں کہ ریاضی کے ذیادہ تر فارمولے مسلمانوں کے سکھائے ہوئے ہیں- فلاحی ریاست کا فلسفہ پیغبمبر خدا، رحمتاللعالمین ، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا دیا ہوا ہے-
خیر یہ بحث تو جانے کہاں تک جائے گی- اپنی تاریخ میں ہی رہ گئے یہ سارے کارنامے اور آج ہم انہی کو سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں- پل بھر کو سر اونچا کرتے اور پھر مغرب کے کسی غیر مسلم کی ایجاد، آئی فون یا سمارٹ فون کے آگے سر جھکا لیتے ہیں- کیا جاتا ہے اگر دن بھر غیر مسلم کی ایجادات کے استفادہ حاصل کیا جاتا ہے- یہ جو کمپیوٹر سسٹم جس پر یہ آرٹیکل ٹائپ ہو رہا ہے یہ بھی کسی غیر مسلم کا یجاد کیا ہوا ہے- مگر کیا فرق پڑتا ہے- اپنی پرانی تاریخ ہی ایک لمحے کو سرشار کرنے کو کافی ہے- اس کے بعد آج کی نسل یا ہم سے بڑوں نے کیا کیا کارنامے دکھائے معلوم نہیں بس یہ ضرور ہے کہ ہمارے بڑے بھی کہا کرتے تھے کہ ہمارا دور بہتر تھا- ملکی حالات تب ایسے نہ تھے- اب یہی بات ہم بھی اپنے بچوں کے سامنے کرتے ہیں- عجیب بات ہے کہ ہم آج بھی اسی بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ نیا سال منایا جائے یا نہیں- نئے سال پر، ویلنٹائن پر فتووں کے انبار لگ جاتے ہیں مگر آج کا مسلمان خود کب اس قابل ہوگا کہ دوسرے ان کے تہواروں کو سراہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں-
اپنے اندر کا احساس کمتری ختم کر کے خود پر فخر کرنا سیکھیں تو شاید کسی اور کی اندھی تقلید نہ کرنی پڑے