کریڈٹ سوئس بینک کے 18 ہزار اکاؤنٹس کا ریکارڈ لیک
بوسنیا: پنڈورا اور پاناما کے بعد نیا ہنگامہ، کریڈٹ سوئس بینک کے 18 ہزار اکاؤنٹس کا ریکارڈ لیک ہوگیا، کئی ڈکٹیٹرز، سیاستدانوں اور مافیاز سے تعلق رکھنے والے افراد کے کھاتے بھی شامل، اکاؤنٹس میں 100 ارب سے زائد ڈالر موجود، آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی) نے تفصیلات جلد منظر عام پر لانے کا اعلان کردیا۔
تفصیلات کے مطابق کريڈٹ سوئس لیک نے اکاؤنٹس ميں 100 ارب ڈالر سے زائد رقم موجود ہونے کا انکشاف کيا ہے، جن ميں کئی ڈکيٹيٹرز، سياستدانوں اور خفيہ اداروں کے سربراہان کے کھاتے شامل ہيں۔ سوئس سیکریٹس ميں اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کا نام بھی آيا ہے۔ اُن کے دور ميں ايک اکاؤنٹ ميں 230 ملين سوئس فرانک موجود تھے، یہ وہ دور تھا جب اُردن نے اربوں روپے کی غير ملکی امداد حاصل کی۔
او سی سی آر پی کے مطابق سوئس کریڈٹ میں اردن کے بادشاہ شاہ عبد اللہ کے صرف ایک اکاؤنٹ میں 223 ملین ڈالر پڑے ہوئے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں اردن کو زر مبادلہ کی شدید کمی کا سامنا تھا، مصر کے ایک خفیہ ادارے کا سربراہ، جرمن عہدیدار، وینزویلا کے بزنس مین اور آذربائیجان کا ایک امیر ترین شخص بھی ان افراد میں شامل ہے جن کا نام ان خفیہ اکاؤنٹس میں سامنے آیا ۔
راز افشاء کرنے والے شخص (Whistleblower) نے جرمن اخبار سوُدوچے زائتونگ (Süddeutsche Zeitung) کو یہ ڈیٹا فراہم کیا ہے جس کے بعد اخبار نے دنیا میں تحقیقاتی صحافت کی سب سے بڑی تنظیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کے ساتھ مل کر اس پر کام کیا۔ لیک ہونے والی تفصیلات میں 18 ہزار بینک اکائونٹس اور 30 ہزار کھاتہ داروں کی تفصیلات شامل ہیں جن کے دنیا کے سب سے بڑے نجی بینک ’’کریڈٹ سوئیز‘‘ میں 100 ارب ڈالرز (17 کھرب 535 ارب پاکستانی روپے) تک کے اثاثے موجود ہیں۔
39 ممالک سے تعلق رکھنے والے 48 میڈیا ہاؤسز کے 160؍ سے زائد صحافیوں نے مل کر کریڈٹ سوئیز سے لیک ہونے والی معلومات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ بینک سوئٹزرلینڈ کا دوسرا سب سے بڑا بینک ہے۔ ڈیٹا میں کئی پاکستانیوں کے نام بھی سامنے آئی ہیں۔ 1400 پاکستانیوں نے 600 کے قریب اکائونٹس ہیں جو کریڈٹ سوئیز بینک میں موجود ہیں۔ ڈیٹا میں ایسے اکاؤنٹس کا پتہ چلا جو اب بند ہیں لیکن ماضی میں فعال رہے ہیں۔
یہ اکائونٹس متنوع نوعیت کے ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو ماضی میں یا حال میں نیب کی تحقیقات کا سامنا کر چکے یا کر رہے ہیں۔ ایسے کیسز بھی ہیں جن میں ایسے لوگ جن کے خلاف نیب کی تحقیقات جاری تھیں اور انہوں نے اسی دوران بینک میں اکاؤنٹس کھولے اور نیب کو بھنک تک نہ پڑی۔ کئی ایسی سیاسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے اُس وقت سوئس بینکوں میں اکاؤنٹس کھولے جب وہ عہدوں پر تھے اور انہوں نے ان اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں میں ذکر تک نہیں کیا۔
بینک میں اوسطاً ہر پاکستانی کے اکاؤنٹ میں 4.42؍ ملین سوئس فرانک (84 کروڑ 13 لاکھ 29 ہزار سے زائد پاکستانی روپے) موجود ہیں جبکہ لیک ہونے والے ڈیٹا میں تمام کھاتہ داروں کے اکاؤنٹس میں اوسطاً 7.5 ملین سوئس فرانک (ایک ارب 42 کروڑ 75 لاکھ 95 ہزار سے زائد پاکستانی روپے) موجود ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ سوئس بینکوں کے کلائنٹ روسٹرز دنیا کے سب سے زیادہ محفوظ رازوں میں سے ہیں، جو دنیا کے چند امیر ترین لوگوں کی شناخت کی حفاظت کرتے ہیں اور اس بات کا اشارے دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دولت کیسے جمع کی۔ ڈیٹا ان اکاؤنٹس کا احاطہ کرتا ہے جو 1940 کی دہائی سے لے کر 2010ء کی دہائی تک کھلے تھے لیکن بینک کے موجودہ کاموں کا احاطہ نہیں کرتے۔