رات کوعدالتیں کھلنے پر تشویش کیوں ہے: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ رات کوعدالتیں کھلنے پر تشویش کیوں ہے، اگر معاملہ آئین یا پسے ہوئے طبقے کا ہوتو عدالتیں رات تین بجے بھی کھلیں گی، عدالت ہر کسی کے لیے یہاں موجود ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ یہ عدالت ہر ایک کے لیے برابر ہے ؟ آپ نے نجی ٹی وی کے اینکر کا کل کا پروگرام سنا ہے ، کیوں اتنا Concerned ہیں کہ عدالتیں رات کو کیوں کھلی ہیں؟ ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھولی گئیں، کیا اس بیانیے کے پیچھے کوئی سیاسی وجہ ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ کورٹ بند کردیں اور ایسی کوئی درخواست نا لیں ، یہ عدالت توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتی ، اس عدالت نے عدالتی وقت کے بعد کئی کیسز کو سنا ہے ، کوئی ایک ذمہ داری بھی ہوتی ہے آپ عدالتوں پر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں، کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ آئین کی خلاف ورزی کرے، اگر آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے کی درخواست آئے گی تو عدالت رات تین بجے بھی کھلے گی، آپ کے صحافیوں کو دن دھاڑے گولیاں ماری گئیں ان کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کامن سینس کی بات بتائیں اس شام سپریم کورٹ کا کون سا آرڈر پاس ہوا تھا، جس پر سب نے شور مچایا ، اداروں کو آپ جس طرح آپ اپنے سیاسی بیانیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے،
عدالت آپ کو تجویز کرتی ہے کہ ایسا نا کریں، پھر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم کسی کے کہنے پر یہاں بیٹھے ہیں ، آپ اپنے اندر بھی دیکھیں، کیا 1977 اور 1999 کو یہ عدالتیں بیٹھی ہوتیں تو تاریخ آج مختلف نا ہوتی، 9 اپریل کو عدالت نے ایک واضح میسیج دیا ہے کہ کوئی خلاف آئین کام برداشت نہیں کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے خلاف سیاسی بیانیوں اور ان پر حملہ کرنے میں کیا فرق ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کے صحافیوں کو دن دھاڑے گولیاں ماری گئیں ان کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں،چیف جسٹس نے کہا کہ 2019میں ہم نے پالیسی بنائی کسی بھی وقت آپ پٹیشن فائل کر سکتے ہیں ، آپ چینل ڈرتے ہوں گے یہ عدالت کسی سے نہیں ڈرتی ، صرف اللہ سے ڈرتی ہے۔
وکیل نے بتایا کہ اینکر پرسن اور ان کی فیملی کو ہراساں کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے حکام نے جواب دیا کہ ہراساں کرنے کے الزام میں بھی کوئی صداقت نہیں، ہم نے کوئی ایکشن نہیں لیا، کوئی انکوائری نہیں کی۔ عدالت نے صحافی سے سوال کیا کہ آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلچ اسٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے؟مسنگ پرسنز کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے۔