ارشد شریف کی گاڑی کے ڈرائیور کا پہلا مبینہ بیان آگیا، میزبانی کرنے والے دونوں بھائی…
اسلام آباد (ویب ڈیسک) صحافی زین علی نے دعویٰ کیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل میں ان کے میزبان وقار احمد اور خرم احمد پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اپنے ایک وی لاگ میں زین علی نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف کے ساتھ فائرنگ کے وقت گاڑی میں خرم احمد موجود تھے۔ یہ دو بھائی وقار احمد اور خرم احمد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا کراچی کے ساتھ ساتھ کینیا میں بھی وسیع کاروبار ہے۔ یہ اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال کے دوست ہیں اور ارشد شریف کو جب دبئی سے ڈی پورٹ کیا جا رہا تھا تو سلمان اقبال نے ہی انہیں اپنے ان دوستوں کے پاس بھیجا تھا۔
زین علی کے مطابق خرم احمد نے اپنے پہلے مبینہ بیان میں کہا ہے کہ ارشد شریف ان کے فارم ہاؤس میں موجود تھے، وہاں سے کھانا کھا کر دوسرے فارم ہاؤس جا رہے تھے، یہاں ارشد شریف کے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا، دوسرے فارم ہاؤس سے 14 سے 15 کلومیٹر دور ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی ، اسی اثنا میں خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون ملا دیا اور واقعے کے بارے میں بتایا، وقار نے اپنے بھائی کو وہاں سے گاڑی بھگا کر دوسرے فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا۔ خرم کے بیان کے مطابق جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ارشد شریف شہید ہوچکے تھے۔
زین علی کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کے معاملے میں سوالات وقار احمد اور خرم احمد پر اٹھ رہے ہیں۔ کینیا میں ارشد شریف کی موجودگی کا صرف تین سے چار لوگوں کو پتا تھا۔ اس حوالے سے سلمان اقبال، ارشد شریف کے پروڈیوسر عادل راجہ اور ارشد شریف کی والدہ کو پتا تھا کہ وہ کینیا میں وقار اور خرم کے پاس موجود ہیں، اس بات کا ان کی اہلیہ کو بھی نہیں پتا تھا تو یہ انفارمیشن لیک کیسے ہوئی؟
زین علی کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی والدہ نے کچھ صحافیوں سے یہ بات کہی ہے کہ وقار احمد اور خرم احمد سے تحقیقات ہونی چاہئیں، ان کے ہوتے ہوئے ایسا واقعہ کیوں پیش آیا؟ فرانزک ماہرین کا کہنا ہے کہ خرم احمد کے بیان پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے بیان کے مطابق چلتی گاڑی پر فائرنگ ہوئی جب کہ ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی گاڑی روک کر انتہائی قریب سے فائرنگ کی گئی، اس کہانی میں بہت زیادہ جھول ہے۔