سرفرازاحمد کا ورلڈ کپ کی مہم قبل از وقت ختم ہونے پر افسوس کا اظہار
کراچی : پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمدنے کہاہے کہ اس ورلڈ کپ کی مہم قبل از وقت ختم ہونے پر افسوس ہے، ہماری مجموعی کارکردگی بری نہیں تھی لیکن شروع میں اگر ایک دو اچھے میچ کھیل جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی، اچھی کرکٹ کھیلنے کے باوجود ورلڈ سیمی فائنل نہ کھیلنا افسوس ناک ہے،ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک میچ خراب کھیلنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا، اگر وہ میچ بہتر کھیلتے تو صورتحال مختلف ہوتی،لارڈز میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ جیتنے کے باوجود پاکستانی ڈریسنگ روم میں ہر کوئی مایوس تھا، کوئی جشن نہیں منایا گیا اور نہ مبارکباد کا تبادلہ ہوا کیونکہ ٹیم سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکی۔ ٹیم چاہتی تھی کہ سیمی فائنل میں جائے ۔
خصوصی انٹر ویو میں سرفراز احمد نے کہا کہ ورلڈ کپ سے پاکستان کو بابر اعظم، امام الحق اور شاہین شاہ کی صورت میں تین اسٹارز ملے ہیں آج کے یہ ینگ اسٹارز 2023کے ورلڈ کپ کے میگا اسٹار بن جائیں گے۔ ماہرین تینوں کی صلاحیتوں کے جس طرح معترف ہیں تینوں بھارت کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتوحات کے مرکزی کردار ہوں گے۔بابر اعظم نے 8میچوں میں474 اور امام الحق نے 305 رنز بنائے۔ لیفٹ آرم فاسٹ بولر شاہین شاہ نے بنگلہ دیش کے میچ میں یارکرسے وسیم وقار، شعیب اختر کی یاد تازہ کردی۔ شاہین نے پانچ میچوں میں 16 وکٹیں حاصل کیں۔ بنگلہ دیش کے میچ میں35رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کیں اور ورلڈ کپ میں چھ وکٹیں لینے والے کم عمر بولر بن گئے۔سرفراز احمدنے کہاکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں 7وکٹ کی بدترین شکست نے ہماری مہم کو شدید متاثر کیا۔105 رنز کے معمولی اسکور پر آئوٹ ہونے کے بعد ہم سنبھل نہ سکے، رہی سہی کسر آسٹریلیا کے میچ نے پوری کردی۔ورلڈ کپ سیمی فائنل نہ کھیل کر مایوس ضرور ہیں لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں کہ شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم اور امام الحق ورلڈ کرکٹ کے نئے سپر اسٹارز ہیں۔ مستقبل میں پاکستانی ٹیم کی فتوحات میں تینوں کا کردار اہم ہوگا تینوں لمبی انٹر نیشنل کرکٹ کھیلیں گے۔ ورلڈ کپ میں نوجوان کرکٹرز کی ریکارڈ ساز کارکردگی یہ بتاتی رہی ہے کہ ان کے مستقبل تابناک ہیں اور پاکستان کرکٹ کو یہ کھلاڑی آگے لے کر جائیں گے۔سرفراز احمد نے کہا کہ ہماری ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ سیمی فائنل میں اس لئے نہ پہنچ سکے کیوں کہ ہمارا رن ریٹ بہتر نہیں تھا۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے میچ ایسے تھے جس نے ہماری ورلڈ کپ جیتنے کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ آسٹریلیا کا میچ بھی جیت سکتے تھے۔ بھارت کے خلاف شکست کے بعد انہوں نے تمام کھلاڑیوں سے یہ کہا تھا کہ کہیں نہ کہیں کھلاڑیوں سے غلطی ہورہی ہے کیونکہ کوچنگ اسٹاف سخت محنت کررہا ہے لیکن میدان میں یہ کھلاڑیوں کی۔ ذمہ داری ہے کہ اچھا پرفارم کریں۔اپنے آخری گروپ میچ میں پاکستان ٹیم نے بنگلہ دیش کو 94 رنز کے مارجن سے شکست دے کر گروپ اسٹیج میں نیوزی لینڈ کی طرح 11 پوائنٹس تو حاصل کر لیے لیکن نیوزی لینڈکے مقابلے میں رن ریٹ خراب ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔پاکستانی ٹیم ایونٹ میں اپنے ابتدائی 5 میچوں میں سے صرف ایک میچ میں کامیابی حاصل کر سکی جبکہ اسے 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ایک میچ بارش کی نذر ہو گیا تھاجبکہ اپنے بقیہ 4 میچوں میں قومی ٹیم نے مسلسل فتوحات سمیٹیں۔سرفراز احمد نے کہا کہ میری انفرادی کارکردگی ملی جلی رہی وکٹ کیپنگ میں بہت اچھا رہا آخری تین میچوں میں بیٹنگ میں ناٹ آئوٹ رہا۔ کوشش کی کہ ٹیم کو اپنی کارکردگی سے فائدہ پہنچا سکوں۔سرفراز نے کہا کہ ہماری مجموعی کارکردگی بری نہیں تھی لیکن شروع میں اگر ایک دو اچھے میچ کھیل جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ اچھی کرکٹ کھیلنے کے باوجود ورلڈ سیمی فائنل نہ کھیلنا افسوس ناک ہے۔