اگر فیصلہ غلط ہے تو غلط رہے گا چاہے اکثریت کا ہو
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا ہے کہ ہم آئین کی 50 ویں سالگرہ منا رہے ہیں،آئین پاکستان کے لوگوں کیلئے ہے،یہ میری کتاب نہیں بلکہ اس میں لوگوں حقوق ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آئین پاکستان قومی وحدت کی علات کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیا گیا اور 1971 مشکل وقت تھا اس وقت پاکستان دولخت ہوا۔
پاکستان جب ٹوٹا تو فیڈرل کورٹ میں اس کا زہریلا بیج بویا گیا،1971 میں جسٹس منیر نے اس کا بیج بویا تھا،جو بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور ملک کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جو کام ہم آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد بھی ہوتے ہیں،انتخابات میں الزامات لگاتے ہیں کہ صاف شفاف نہیں ہوئے،4 جولائی 1977 کو ایک شخص آ کر پوری قوم پر مسلط ہو گیا،اس شخص نے 11 سال تک حکومت کی۔
ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر آتا ہے اور خود کو جمہوریت پسند سمجھنا شروع کر دیتا ہے،اصل میں ڈکٹیٹر کو دھوکہ دے رہا ہے اور پھر ریفرنڈم کراتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ جب کوئی نا انصافی ہوتی ہے تو وہ زیادہ دیر نہیں ٹھہراتی،نفرتوں کی وجوہات ہوتی ہیں اور چھوٹی بات کر گھر تباہ ہو جاتے ہیں،چھوٹی بات پر پانی نہ ڈالیں تو مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
2 مارچ 1985 کو آئین کی بحالی کا حکم آتا ہے اس وقت پارلیمان غیر سیاسی تھی،کہا گیا مارشل لاء تب ہٹاؤں گا جب 8 ویں ترمیم کروں گے۔جبراََ 8 ویں ترمیم منظور کی گئی اور مارشل لاء ختم ہوا،انہوں نے اپنے تحفظ کیلئے آئین میں آرٹیکل 52 اے کی شق ڈالی،انہوں نے اس شق کا استعمال کیا اور ان کے منتخب محمد خان جونیجو انہیں پسند نہیں آئے تھے۔ سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج نے مزید بتایا کہ اگلے الیکشن 1988 میں ہوئے،ان الیکشن میں بے نظیر بھٹو نے اکثریت حاصل کی اور وزیراعظم بنیں،ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور تحفظ کریں گے۔
اگر فیصلہ غلط ہے تو غلط رہے گا چاہے اکثریت کا فیصلہ ہو،آئین پر بڑے وار کئے گئے لیکن آئین میں بڑا حوصلہ ہے وہ موجود ہے،اگر تاریخ دہرانی نہیں تو تاریخ سے سیکھیں،تاریخ ہمیں سات مرتبہ سبق دے چکی ہیں ہم خود اس سے سکھیں۔