سر سید کی بصیرت اور سر سید ایکسپریس
گذشتہ دنوں وزیرِاعظم عمران خان نے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر نان سٹاپ سر سید ایکسپریس کا افتتاح کیا تو وزیرریلوے شیخ رشیداحمد نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے روائتی اندازِ خطابت میں بیان کیا کہ میں وزیرِ اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے نیا پاکستان کا وژن دیا اور ان کی ٹیم کا حصہ بنتے ہوئے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اور اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے اس وقت محسوس ہوتی ہے جب میں اپنے عوام کی خدمت کے لئے کوئی نیا اور فلاحی کام سرانجام دیتا ہوں،آج سر سید ایکسپریس کا افتتاح دراصل اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کاعوام سے میںنے وعدہ کیا تھا کہ ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے میں شب و روز ایک کردونگا۔سر سید ایکسپریس نان سٹاپ ریل ہوگی جو راولپنڈی سے کراچی تک کا سفر صرف دس گھنٹوں میں طے کرے گی۔اس سے دونوں شہروں کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں گے،روڈ پر ٹریفک کا رش کم ہو جائے گا،ٹکٹ سستی ہونے کی بنا پر ہر شخص بآسانی سفر کی سہولت سے مستفید ہو سکے گا،جس سے محکمہ ریل اور معیشت مستحکم ہو جائے گی۔علاوہ ازیں ریلوے اسٹیشنز پر یک صد کھو کھے (کیبن) وزیرِاعظم کے پروگرام”احساس“کو اس نیت سے دینے کا بھی اعلان کرتا ہوں کہ اس سے بیواﺅں ،یتیموں اور بے روزگار نوجوانوں کو باعزت روزگار مہیا ہو سکے گا۔حیران کن بات یہ تھی کہ بقول شیخ رشید انہوں نے ریلوے کا خصارہ چھتیس ارب سے کم کر کے بتیس ارب کردیا ہے باوجودیکہ مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔بہت ہی خوش آئند بات ہے،خصارہ میں کمی کے لئے وزیر ِاعظم عمران خان نے شیخ رشید کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ان تمام اقدامات سے ایک بات تو طے ہو جاتی ہے کہ اگر اسی طرز پر پاکستان کے تمام ادارے خواہ حکومتی یانجی ہوں،اگر شبانہ روز اپنا اپنا کردار ایمانداری اور خلوص نیت سے ادا کرنا شروع کر دیں تو بنا کسی مبالغہ آرائی کے چند سالوں میں یہ ملک ان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوگاجنہوں نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔اگر بات کی جائے یورپ اور امریکہ کی تو تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ آج سے دو سوسال قبل ان کی دنیا میں پہچان ماسوا راہزنی،جنگ وجدل اور جہالت کے کچھ بھی نہیں تھی۔لیکن انہوں نے بدلتے دھارے کے ساتھ اپنے آپ کو بدلا اور آج وہ قومیں اپنے علم اور حلم کے ساتھ پوری دنیا پر بالواسطہ یا بلا واسطہ حکمرانی کر رہی ہیں۔
اگر ہم تاریخ برصغیر کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے ایک سو ساٹھ سال قبل سر سید احمد خان ایسے مرد آہن تھے جنہوں نے اپنوں اور بے گانوں کی مخالفت کو برداشت کرتے ہوئے اس بات کا علم اپنے ہاتھ میں تھاما کہ مسلمان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ جدید تعلیم سے بہرہ ور
نہیں ہوتے،گویا وقت کے دھارے کے ساتھ مسلمانوں کو بہہ جانا چاہئے تاکہ دنیا میں اپنا آپ منواسکیں،مگر افسوس صد افسوس کہ اس وقت کے چند نام نہاد علما نے انہیں اور ان کی تعلیمات کو اسلام کےلئے خطرہ قرار دے کر ان کی ذات پر سترہ کے قریب الزامات لگائے کہ گویا سرسید احمد مسلمان نہیں بلکہ خدا کا ہی انکاری ہو کر ملحدی کی صف میں جا کھڑا ہو ا ہے۔ان تمام مخالفت کے باوجود سر سید احمد اپنے مشاہدہ اور بصیرت سے اس بات کا ادراک کر چکے تھے کہ اگر مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار حاصل کرنا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان فی الوقت سیاست سے دور رہیں،علم اور تعلیم پر بھر پور توجہ دیں،یونہی مناسب وقت آئیگا سیاست میں بھی طبع آزمائی ضرور کر لیجئے گا۔سرسید اصل میں جانتے تھے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی معاشی بھی ہے اور تعلیمی بھی لہذا اگر انہیں معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہونا ہے تو پھر اس علم کے حصول کو ممکن بنانا ہے جس سے دور حاضر مستفید ہو رہا ہے،کہ تعلیمی ترقی دراصل معاشی ترقی کا ہی دوسرا نام ہے۔خدا کرے کہ سر سید ایکسپریس بھی سر سید کے نام کی طرح ان کے وژن کی عکاس ہو،کہ وہ تبدیلی،ترقی و خوش حالی اور معاشی استحکام جس کا خواب سر سید نے دیکھا تھا اس کا عشر عشیر یہ ایکسپریس ثابت ہو جائے یا معاشی استحکام میں یہ ایکسپریس پہلا قطرہ بن کر بنجر معاشی زمین کو نم کر دے اور پھر خوش حالی کی بارش کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے جو اس وقت تھمے جب میرے ملک پاکستان میں ہر سُو ترقی،استحکام اور مضبوط معیشت کی فصلیں لہلہانے لگ جائیں(آمین)