ملک میں مارکیٹوں میں ساڑھے 6 سو ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے
اسلام آباد : سابق وفاقی وزیر توانائی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں مارکیٹوں میں ساڑھے 6 سو ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے،آئی پی پیز علاج نہیں بلکہ بلوں کی ادائیگی ہونی چاہیئے، تاجر ٹیکسوں کے ساتھ بجلی چوری بھی کرتے ہیں، آزاد کشمیر ، فاٹا ، بلوچستان 200ارب کی رقم بل ادا نہیں کرتے، بجلی چوری کا بوجھ عام صارف پر پڑتا ہے۔
انہوں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز کا ایشو ہے لیکن یہ پرانا ایشو ہے، 63 فیصد لائف لائن اور پروٹیکٹڈ 200 یونٹس والے صارفین ہیں، 200یونٹس سے 300 یونٹس تک بجلی پر ریلیف کو بڑھانا چاہیئے، اگر آپ ایک سال میں 200 سے کراس کرتے ہیں تو پورے سال بڑھا ہوا ٹیرف لگایا جاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک ماہ میں بڑھا ہے تو اسی مہینے کا ٹیرف ہونا چاہیئے۔
وزارت توانائی کو اس ایشو کو حل کرنا چاہیئے، آزاد کشمیر ٹیرف جمع کرتا ہے ، لیکن ادائیگی ہمیں نہیں ہوتی، فاٹا ، بلوچستان بل ادا نہیں کرتے، یہ رقم 200 ارب بنتی ہے۔ ساڑھے 6سو ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے، 80 فیصد چوری پشاور سے کراچی تک مارکیٹوں میں چوری ہوتی ہے۔ ایک شہر ہے جس میں 82 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے، یہ بہت بڑی رقم ہے۔ چوری کا بوجھ صارف پر پڑتا ہے، وہ ٹھیک احتجاج کررہا ہے، آئی پی پیز علاج نہیں بلکہ بلوں کی ادائیگی ہونی چاہیئے۔
تاجر اگر 50 فیصد ٹیکس دیں تو معاملات حل ہوجائیں، بجلی بھی چوری کرتے ہیں، ٹیکس بھی نہیں دیتے ،تاجر ٹیکسوں کے ساتھ بجلی چوری بھی کرتے ہیں، عام لوگوں کو نہیں پتا چلے گا کہ آئی پی پیز کا مسئلہ کیا ہے؟ بجلی کے بل میں 24 فیصد ٹیکس آتا ہے۔ ان ایشوز پر آئی ایم ایف ہمارے ساتھ ہے، لاہور میں چلے جائیں ، وہاں بہت بڑی مارکیٹ ہے، ایک دکان میں ساڑھے 400 بلب گنتی کی، لیسکو والوں کو کہا چیک کریں، بل ہزاروں میں آتا ہے، جیولری کی دکانوں میں دیکھ لیں، یہ بیماری ہے۔