الیکشن کا انعقاد ۔۔ ممکنات اور تاخیر
تحریر:ڈاکٹر سعید الٰہی
الیکشن کی تاریخ آچکی ہے۔مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ماضی کی طرح تمام صوبوں کے اہم سیاسی شخصیات نئی راہیں تلاش کررہے ہیں۔بلوچستان سے کے پی تک گہماگہمی ہے۔چیئرمین بلاول بھٹو،شریک چیئرمین آصف زرداری اور پی پی کے اہم لیڈران دھواں دار بیانات دے رہے ہیں۔کراچی ،کے پی اور پنجاب میں سیٹیں جیتنے کے لئے سو جتن کررہے ہیں۔ایم کیو ایم ،باپ اورجی ڈی اے بھی نئے اتحاد بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔نواز شریف بھی میدان میں آگئے ہیں۔بلوچستان اور سندھ کے دورے پر روانہ ہورہے ہیں ۔نئے اتحادیوں کی تلاش اور شمولیت متوقع ہے۔کے پی میں ناراض ساتھیوں کو منانے کے لئے وفود جارہے ہیں۔ ملک کے مذہبی اور سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر بھی سیاسی رہنماﺅں کی آمدورفت جاری ہے۔ایم کیو یم کے رہنما بھی ہر روزپینترے بدل رہے ہیں۔تما م پارٹیز نے ایک دوسرے پر الزامات تراشی کا سلسلہ شروع کردیاہے تاکہ عوام کو باور کرایا جا سکے کہ وہ ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث نہیں ہیں بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں نے ان کےلئے کوئی خدمت سرانجام نہیں دیں۔یہ نفسا نفسی ،بیانات اورپیغامات ہم ماضی میں بھی دیکھتے رہے ہیں اوراب پھر یہ تماشاجاری ہے۔ان تمام سرگرمیوں کے نتیجے میں عوام کا ردعمل اوررویہ بھی کسی خاص تبدیلی کا مظہر نہیں ہوگااوریوں چند ماہ ہنگامہ آرائی کے باوجود نتائج مختلف نہیںہونگے اورالیکشن کے بعد بھی ایک مخلوط حکومت قائم ہوگی۔امید کی جاتی ہے کہ مخلوط حکومت ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگی اور عوام کی مشکلات میں کمی ہوسکے گی۔