ارض فلسطین اورہماری اخلاقی ذمہ داریاں
تحریر:مراد علی شاہد
بابا جی سے کسی نے پوچھا کہ بابا جی قوموں کے سقوط کی سب سے بڑی وجہ کیا ہوتی ہے تو بابا نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا کہ بیٹا ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ﷺ کا خلاق کیا ہے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟قرآن ہی آپ ﷺکا اخلاق ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائزکیا گیا ہے۔گویا کہ قوموں کے بننے اور بگڑنے کا سب سے بڑا اور اعلی و ارفع سبب ان کا اخلاق ہوتا ہے۔یاد رکھئے تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ جن قوموں نے اخلاق کے دامن سے جان چھڑائی دراصل اخلاق نے ان کا دامن چھوڑدیا اور پھر تباہی و بربادی ان اقوام کا مقدر ٹھہری۔میں نے مزید بابا جی کو کریدتے ہوئے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ کوئی قوم کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو چکی ہے تو بابا جی نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا ایک بات یاد رکھنا کہ اخلاقی عروج کے درجے ضرور ہوتے ہیں لیکن زوال کا کوئی درجہ نہیں ہوتا۔ارفع اخلاق کو ماپنے اور جاننے کا پیمانہ تو ہے لیکن گراوٹ کے لئے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ فلاں شخص اخلاقی زوال کا شکار ہے۔لوگ پیمانے خود ہی جان لیتے ہیں۔
ارض فلسطین جو اگرچہ یہودونصاریٰ اور مسلمانوں کے لئے مقدس ہے لیکن ہم مسلمانوں کا قبلہ اول اورپیغمبروں کے مدفن کی وجہ سے معتبر ومکرم ہے۔ جسے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں فتح کیا گیا نہ صرف مسلمانوں نے وہاں حکومت قائم کی بلکہ عدل وانصاف کا اعلی معیار بھی قائم کیا۔ ہمارے لئے ارض فلسطین پر واقع بیت المقدس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ ہمارے آقا ﷺ نے سفر معراج کا آغاز اللہ کی طرف سے بھیجے گئے براق پر وہاں سے شروع کیا اور پھر سدرة المنتہی سے رف رف پر عرش معلیٰ پر تشریف فرما ہوئے۔ صلیبی جنگوں میں جب پیٹر دی ہرمٹ نے محسوس کیا کہ ہم یہ جنگ صلاح الدین ایوبی کے ہوتے ہوئے نہیں جیت سکتے تو اس نے صلح کا پروانہ بھیج کر پسپائی اختیار کرنے میں ہی عافیت خیال کی۔لیکن یہود کی چالاکی اس بات میں مضمر تھی کہ انہوں نے ایک التجا کی کہ ہم مفتوح ہیں لیکن ہمارے لئے بھی یہ مقام اتنا ہی مقدس ہے جتنا کہ مسلمانوں کے لئے لہذا ہمیں اس بات کی اجازت دی جائے کہ ہم شہر سے دور کسی بستی میں قیام پذیر ہوکر اپنے مقدس مقام کی زیارت کر سکیں اور سال میں کبھی کبھار دیوارگریہ پہ جاکر اپنے مذہبی ¿فرائض کو سرانجام دے سکیں۔بس یہیں سے ان کی چالاکی کا آغاز ہوتا ہے اور وہ پنجابی میں کیا کہتے ہیں کہ اگ لینے آئی تو گھر والی بن بیٹھی۔
دنیا کے نقشہ پر اٹھاون کے قریب مسلمان ممالک ہیں جن میں سے اکثریت خاموش ہیں کہ ان کی معاشی وسیاسی طاقت کا انحصار بلاواسطہ یا بالواسطہ اسرائیل پر ہے۔لہذا وہ اپنی معاشی مجبوری کے تحت کھل کر فلسطین کی حمائت نہیں کرپارہے۔ حالانکہ مسلم ممالک میں ایک ملک ایٹمی طاقت جبکہ دو تین ایٹمی طاقت کے حصول میں سرتوڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔باوجودیکہ ایسے ممالک کا خاموش رہنا اور اپنی کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہ کرنا عالم اسلام میں بسنے والی رعایا کے دل میں بہت سے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن سرحدوں پر جنگ حکومتیں کرتی ہیں عوام نہیں۔کچھ اور نہیں تو ہمیں ایمان کی سب سے کمزور صفت پر عمل پیرا کرتے ہوئے انہیں منہ سے ہی برا کہہ دینا چاہئے ۔
ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہمیں ان تمام اشیائے خورونوش کا بائیکاٹ کر دینا چاہئے جو کہ اسرائیل کی پراڈکٹ ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا۔کیا ہمارے بچے جنہوں نے پیدا ہوتے ہی گٹھی کے طور پر ان کی ماﺅں نے کے ایف سی اور برجر جیسی اشیا کا ذائقہ چکھایا۔اب وہ کیسے ان سے جان چھڑا سکتے ہیں۔لیکن دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل نہ ہو۔ہمیں چاہئے کہ فاسٹ فوڈ کی تمام پراڈکٹس کا متبادل مارکیٹ میں پیش کریں جیسے کہ سعودی عرب میں البیک والے ہیں۔اب جہاں بھی البیک والے ہیں وہاں کے ایف سی والے اپنی برانچ بھی نہیں بناتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہاں ان کا گزارہ نہیں ہونے والا۔اب یہ تمام جنک فوڈز ہمارے خون میں اس طرح رچ بس گیا ہے بلکہ ہم نے تو انہیں معیار زندگی اور سٹیٹس کی علامت بنا لیا ہے تو پھر کیسے ہم ان سے جان چھڑا سکتے ہیں۔لہذا ان کا بائیکاٹ ضرور کریں لیکن ساتھ ہی ساتھ اسی طرح کا متبادل بھی پیش کریں۔
اب ایسا کرنا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے بس ایک مضبوط فیصلہ لینے کی ضرورت ہے ،تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جب قلعہ خیبر فتح نہیں ہو پا رہا تھا تو آقا ﷺ نے دو اہم فیصلے فرمائے ،پہلا فیصلہ یہ تھا کہ قلعہ کے گردو نواح میں جتنے بھی کھجور کے درخت ہیں ان کو کاٹ دیا جائے،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جو پیغمبر درخت لگانے کو صدقہ جاریہ اور فتح مکہ کے وقت یہ اعلان فرماتے ہیں کہ درختوں کو نہ کاٹا جائے تو وہ درختوں کو کاٹنے کا حکم کیسے صادر فرما سکتے ہیں تو ایسا حکمنامہ جاری کرنے کے پیچھے حکمت یہ تھی کہ یہودیوں کی معیشت کا دارومدار انہیں درختوں پہ تھا۔ان تمام درختوں کو کاٹ دینے سے ان کی معیشت تباہ برباد ہو جائے گی اور ان کی معاشی حالت جنگ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔گویا اگر آپ کسی ملک یا سلطنت پر اپنی حکومت چاہتے ہیں تو ان کی معیشت کو تباہ وبرباد کردو،وہ ملک یا قوم خود بخود تباہ ہو جائے گی۔لہذا اگر واقعی مسلم ممالک چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی معیشت تباہ ہو جائے تو عملی طور پر اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام اشیائے خورونوش کا بائیکاٹ کرنا ہوگا جن کی وجہ سے اسرائیل کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔اس لئے کہ ہم کچھ اور نہیں کرسکتے تو کم از کم ایمان کے سب سے کمزور درجہ کو اپناتے ہوئے زبان سے برا بھلا کہتے ہوئے ان کی اشیا کا بائیکاٹ تو کر ہی سکتے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ ہمارے اخلاقی بائیکاٹ سے ان کی معیشت تباہی کا شکار ہو جائے۔