تعیّشات کو ضروریات نہ بنائیں
تحریر:رفیع صحرائی
آج کل لاکھوں روپے کمانے والا پریشان ہے تو پچیس تیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والا بھلا کیسے خوش ہو سکتا ہے۔ ہر طرف مہنگائی کا رونا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ مہنگائی پچھلے کچھ عرصے میں بے تحاشہ بڑھی ہے جس نے عام آدمی کی قوتِ خرید میں کمی کر دی ہے۔ مہنگائی کا جن عمران خان حکومت کے دوران بوتل سے نکلا اور پھر واپس جانا بھول گیا۔ یہ جن عفریت کا روپ دھار کر کم آمدنی والے طبقے کو نگلتا جا رہا ہے۔ شہباز شریف حکومت کے دوران مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچ گئی اور وہ جو مہنگائی ختم کرنے آئے تھے انہوں نے عوام پر تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کا بوجھ لاد کر انہیں مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا۔ نگرانوں نے آ کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ ڈر ہے کہ یہ کہیں آکسیجن کے استعمال پر بھی ٹیکس نہ لگا دیں۔
اگر مہنگائی کے اسباب پر غور کیا جائے تو کافی حد تک اس کی ذمہ داری ہم عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہم نے اپنا طرزِ زندگی بدل کرخود مہنگائی کو دعوت دی ہے۔ سادگی کو چھوڑ کر سہولیات کے پیچھے بھاگنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اب بات صرف سہولیات تک محدود نہیں رہی۔ بات سہولیات سے آگے بڑھ کر تعیشات تک پہنچ گئی ہے اورہم نے تعیشات کو ضروریات بنا لیا ہے۔
موبائل فون کی آمد سے پہلے زندگی بہت سہل ہوا کرتی تھی۔ اب موبائل صرف کال سننے کے کام نہیں آتا۔ اس نے چھوٹی چھوٹی بہت سی مشینوں کو نگل لیا ہے۔ خط لکھنے کی خوب صورت روایت اختتام پذیر ہوئی۔ فوٹو گرافر اور ویڈیو والے سے نجات ملی۔ ہاتھ پر گھڑی باندھنے کی ضرورت نہ رہی۔ ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر اورسینما کی چھٹی ہو گئی۔ اخبارات کی حاجت نہ رہی۔ کسی سے راستہ پوچھنے کے تکلف سے جان چھوٹی کہ موبائل میں مطلوبہ مقام کی لوکیشن موجود ہوتی ہے۔ بلڈپریشر اور شوگر چیک کرنے کی ایپس موبائل میں موجود ہیں۔ آن لائن شاپنگ نے بازار جانے کی زحمت سے چھٹکارا دلا دیا ہے۔ غرض صرف ایک موبائل نے دنیا سمیٹ کر آپ کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے لیکن کیا کبھی غور کیا ہے کہ اس موبائل نے ہماری زندگی سے سکون چھین لیا ہے۔ مہنگے موبائل، بیلنس کا خرچہ، مہنگے پیکیجز نے اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے۔ جذبہ مسابقت اور بلاضرورت چیزوں کی آن لائن خریداری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ کھانے کو روٹی ملے نہ ملے موبائل میں بیلنس ہونا ضروری ہے۔
گلی گلی میں بیوٹی پارلر کھل گئے ہیں۔ ولیمے، مہندی، بارات، سالگرہ اور دیگر رسومات کے موقع پر الگ الگ میک اپ نے اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ کاسمیٹکس میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے جلدی بیماریوں اور الرجی کے ڈاکٹروں کی الگ سے چاندی ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ جس عورت یا لڑکی نے کریمیں اور کاسمیٹکس استعمال کر لےے تو پھر اس کی ان سے جان نہیں چھوٹ سکتی کہ یہ رنگت کو جلا دیتی ہیں۔ مصنوعی خوبصورتی کے شوق میں حقیقی حسن سے بھی خواتین ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ کاسمیٹکس کا استعمال کبھی عیاشی تصور ہوتا تھا اب اسے ضرورت بنا لیا گیا ہے۔
سادہ اور صحت بخش کھانوں کی جگہ اب برگر، شوارما، پیزا اور جانے کون کون سی الا بلا چیزیں ہماری زندگی میں سرایت کر گئی ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر، جلد، معدے اور دل کی بیماریوں کو تیزی سے پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں مگر ہم نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی پہلے فیشن کے طور پر اس رجحان کو اپنایا اور اب اسے ضرورت بنا لیا ہے۔
پہلے پیدل چلنے کا رواج عام تھا۔ لوگ ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں پیدل پہنچ جایا کرتے تھے۔ زیادہ دور جانا ہوتا تو بائیسکل پر چلے جاتے۔ گاﺅں کے لوگ شہر سے سودا سلف سائیکل پر لاتے تھے۔ پھر ہم ایسے ماڈرن ہوئے کہ پیدل چلنا چھوڑ دیا اور سائیکل کو بھی بھولی بسری یاد بنا دیا۔ اب چند گز کے فاصلے پر جانا ہو تو موٹر سائیکل استعمال کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہم صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ چند قدم چلنے کے بعد ہانپنے لگتے ہیں۔ برائلر گوشت کھا کھا کر برائلر جیسے ہو گئے ہیں۔ سستی اور کاہلی ہمارے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔
حکومت پنجاب نے بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑیوں اور موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کر دیا ہے۔ کم عمر نوجوانوں کے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس اقدام سے سب سے زیادہ طلبہ متاثر ہوئے ہیں اور زیادہ واویلا بھی انہی کی جانب سے کیا جا رہا ہے لیکن دیکھا جائے تو آئی جی پنجاب نے یہ جرا¿ت مندانہ قدم اٹھا کر بہت سے ممکنہ حادثات کا سدِباب کیا ہے۔ نوجوان لاپرواہی کے ساتھ اور جوانی کے جوش میں تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر رف ڈرائیونگ کے علاوہ ون ویلنگ جیسا جان لیوا کھیل ایڈونچر کے شوق میں کھیل کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا زندگی بھر کے لےے معذور ہو جاتے ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو موٹر سائیکل چلانے کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہےے۔ رہ گیا سکول جانے کا مسئلہ تو اس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ موٹر سائیکل بیچ کر طلبہ کو سائیکل لے کر دیے جائیں۔ ان کی صحت بنے گی۔ حادثات سے بچیں گی۔ پٹرول کی بچت ہو گی اور اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
سو باتوں کی ایک بات ہے کہ اگر مہنگائی سے جان چھڑانی ہے تو تعیشات کو ضروریات کی فہرست سے نکال دیجےے۔ بچت بھی ہو گی اور زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔