بشر کامل

بشر کامل

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج کرہ ارض پر ہر طرف انسان کی آزادی کا بہت زیا دہ چرچا ہے گذشتہ پندرہ صدیوں میں دنیا بہت زیا دہ تبدیلیوں اور انقلابات سے گزری ہے کیا ان انقلابات سے حضرت انسان حقیقی معنوں میں آزاد ہوا ہے کیا انسانوں میں طبقاتی تضا د دور ہوا ہے کیا دنیا کے کسی خطے میں انسان برابری کی سطح پر آئے ہیں ۔ روس کا سو شل کنٹریکٹ انقلاب فرانس امریکہ کی دریا فت داس کیپیٹل روسی انقلاب چینی انقلاب برطانوی انقلاب دو عالمی جنگیں اقوام متحدہ کی تشکیل ساری دنیا ہر جگہ نا م نہاد انقلابوں سے گزری لیکن کیا اِن تمام انقلابات اور تبدیلیوں کے نتیجے میں انسان حقیقی معنوں میں آزاد ہوا گوروں نے سیا ہ فاموں کو برابری کا مقام دیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار ہندوستانی حکو مت نے نچلی ذات کے ہندو ں کو برابری کا مقام دیا صدیوں سے انسان کش نظام تبدیل ہوا کیا طاقتور اور کمزور کے درمیان فاصلے ختم ہو ئے تو یقیناجواب آئے گا نہیں دنیا بھر میں جمہوریت کا مصنو عی ڈنکا بجا یا جا رہا ہے کہ عوا م کی حکو مت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے تو کیا حقیقت میں حقیقی معنوں میں ایسی حکو مت کہیں نظر آتی ہے نہیں کیا یہودی لا بی مغربی ممالک میں اپنا خفیہ اثر رسوخ نہیں رکھتی کیا امریکہ دوسرے ملکوں سے اپنی مر ضی کے فیصلے نہیں کرواتا سچ تو یہ ہے کہ آج بھی اشرافیہ صاحب اقتدار ہے اور کروڑوں انسان ان کے غلام آج اگر مغربی ممالک آزادی کا ڈھونگ رچائے بیٹھے ہیں تو سچ تو یہی ہے کہ آزادی اِس حد تک ضرور ہے انسان کو ہوس کے اخلاقی ضابطے سے آزادی مل گئی ہے اس کی خوا ہشات کا بے راس گھوڑا برق رفتاری سے دوڑے چلا جا رہا ہے امریکہ بہادر اور اس کے اتحادی ملکوں کو ہر جگہ اپنی من ما نی کر نے کی پو ری آزادی ہے وہ جس بے دردی سے عالمی امن کو درہم برہم کر تا ہے کو ئی اس کو روکنے والا نہیں ہے طاقتور
ملکوں کو کمزور ملکوں کی آزادی سلب کر نے کی پو ری اجازت ہے آج بھی طاقتور ملک اپنی مرضی کے فیصلے طا قت یا خفیہ معاہدوں سے کمزور ملک میں کر تے نظر آتے ہیں ۔ آج بھی قانون جرم دیکھ کر نہیں مجرم دیکھ کر حرکت میں آتا ہے دنیا نام نہاد کئی مصنو عی انقلابوں سے گزر چکی ہے لیکن ہمیں حقیقی انقلاب اور انسا ن کی آزادی کہیں بھی نظر نہیں آتی یو رپ جتنا بھی جانبداری سے کام لے لیکن اسے یہ ماننا ہی ہو گا کہ حقیقی انقلاب وہی تھا جو انسان کامل کے ہا تھوں چودہ صدیا ں پہلے بر پا ہوا تھا نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سید الانبیا ﷺ کے آنے سے لفظ و معنی کے درمیان فاصلے مٹ گئے تمام انسانوں کو ہم رنگ کر دیا گیا حقیقی مساوات سے روشناس کر ایا بندہ و آقا کا خاتمہ ا ہم آزادی تھی صرف ایک خدا کی عبادت۔ انسان کامل نے جس خدا ئے بزرگ و برتر کا تعارف کرا یا وہ زبان و بیان سے پاک ہے مگر وہ تمام زبانوں کو سمجھتا ہے و ہ کسی بیان کی احتیاج نہیں رکھتا وہ چینی درسی زبان کی مناجات بھی اس طرح سنتا ہے جس طرح اہل عرب کی وہ ایشیا افریقہ والوں کی بھی سمجھتا ہے وہ غزالی و رازی کے عالمانہ نکات بھی جانتاہےانسان کامل نے جس خدا ئے بزرگ و برتر کا تعارف کرا یا وہ زبان و بیان سے پاک ہے مگر وہ تمام زبانوں کو سمجھتا ہے و ہ کسی بیان کی احتیاج نہیں رکھتا وہ چینی درسی زبان کی مناجات بھی اس طرح سنتا ہے جس طرح اہل عرب کی وہ ایشیا افریقہ والوں کی بھی سمجھتا ہے وہ غزالی و رازی کے عالمانہ نکات بھی جانتاہے اور کسی گونگے بہرے کے دل و دماغ اور روح کے غلافوں میں لپٹی ہو ئی معصوم خواہش بھی وہ تو پودوں درختوں جانوروں پرندوں اور آبی جانوروں کی با تیں بھی خو ب سمجھتا ہے وہ اپنی مخلوق کی زبان کے اعتبار سے تقسیم کو پسند نہیں کر تا وہ رب کعبہ نسل اور ذات پا ت سے آزاد اور پاک ہے اس کے سامنے قریشی و ہا شمی اعلی نسل سے لے کر گنگوا تیلی تک سب برابر ہیں اس کے نزدیک شکل و صورت اور عہدے نہیں بلکہ تقوی کا معیار ہی فضلیت رکھتا ہے اس کے سامنے نسلی درجہ بندی کو ئی مقام نہیں رکھتی وہ خدا جو اول و آخر ظاہر با طن حیی قیوم ذولجلال والاکرام جبار قہا ر رحیم کریم اور رحمن ہے وہ زبان و مکان سے پاک ہے وہ کسی اعلی مخصوص جگہ پر نہیں رہتا وہ عرش پر ہی نہیں بلکہ کمزور مظلوم غریب کے دل گدازمیں بھی رہتا ہے ضروری نہیں کہ وہ قدسی ملا ئکہ کی پاکیزہ محفل میں رہے وہ تو کسی یتیم کے شکستہ دل میں بھی موجود ہو تا ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ آسمانی بلندیوں سے بھی اوپر رنگ و نور کے سمندر میں رہے وہ تو کچی بستیوں بے نواں غریبوں مسکینوں کی پستیوں میں بھی خوش رہتا ہے جس طرح وہ طبقوں میں تقسیم یا رہنا پسند نہیں کر تا اِسی طرح وہ اپنی مخلوق کو وطن کی بنا پر زبان رنگ و نسل کی بنا پر ایک دوسرے کا دشمن بننے کی اجا زت نہیں دیتا رب کعبہ کے پیغام کو محبوبؓ خدا نے خوب اچھے طریقے سے پھیلایا۔ سرور دو جہاں ﷺ نے اپنی رحمت کے رنگ کو بھی زبان نسل اور وطن سے پاک رکھا چودہ صدیاں پہلے مسجدِ نبوی ﷺ کے کچے ولان میں برپا ہو نے والی مجلس ا قوام متحدہ کا شاندار عکس پیش کر تی تھی مکے کے مہاجرین مدینے کے انصاری فارس کے سلمان حبش کے بلال روم کے صہیب رسا میں عثمان غنی غربا میں ابوہریرہ ۔ اشراف میں عمر و علی اور خانودہ غلاماں میں سے انس ایک ساتھ اِس طرح محبت پیار میں بیٹھے نظر آتے کہ دیکھنے والا انہیں مختلف رنگوں میں دیکھتا مگر عشقِ رسول ﷺ غلامی رسول ﷺ اور الہی رنگ سب پر اِس طرح غالب ہو تا اِن کی زبان اور وطنیت مختلف تھی مگر مقصدیت میں کو ئی اختلاف نہ تھا عقیدہ و ایمان ایک تھا نسل الگ ضرور تھی مگر اصل ایک ہی تھی یعنی اسلام خدا اور رسول یہ اعجاز سرتاج الانبیا ﷺ کو حاصل تھا کہ مسلمان کو اہل بیت میں شامل ہو نے کا شرف حاصل ہوا بلال مسجدِ نبوی ﷺ کے موذن بنے اور صہیب مسجد نبوی ﷺ کے امام بنے پیا رے آقا ﷺ کی حقیقی تعلیم اور کردار سازی تھی کہ حضرت بلال کی وفات پر خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے تاریخی جملہ بولا جو آپ اکثر بو لا کر تے تھے ما ت سیدنا (ہمارے سردار انتقال کر گئے ہیں ) اور غریب پروری کی اعلی مثا ل دیکھیں ایک بار حضرت ابو بکر صدیق کی کسی با ت پر حضرت سلمان فارسی رنجیدہ ہو گئے تو یا رِ غار جب با رگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہو ئے تو شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور فرمایا سلمان جس سے نا راض ہو جا ئے تو خدا ئے رحمان اس سے ناراض ہو جا تا ہے ۔ یہ مان شان اور عزتِ تو قیر یہ منصب خا ک نشینوں سو ختہ بختوں حبشیوں غلاموں کو کس کے طفیل نصیب ہوا اس آمنہ کے لال درِ یتیم کے صدقے جس نے ہر یتیم کو درِ یتیم بنا دیا یہ آپ ﷺ ہی تھے جنہوں نے غلا موں کو زمانے بھرکا مولا کر دیا ۔ یہ آپ ﷺ ہی کا فیض تھا کہ گدائے راہ کسی قیصرو کسری کو نگاہ میں نہیں لا تے صدیوں سے غلامی کے چنگل میں پھنسے غلام بھی سیم و زر کے دام میں بھی پھنسنے کو تیا ر نہیں تھے افتاد گانِ خاک اتنے بے باک ہو گئے کہ غلامی کے سارے پر دے چاک کر دئیے خا ک نشین اتنے جبری اور نڈر بن گئے کہ با دشاہوں کا ہر خو ف دل و دما غ سے نکال دیا ۔ آج بھی دنیا بھر میں کا لی رنگت کو باعث عزت نہیں سمجھا جا تا آج بھی کا لی رنگت کی تحقیر کی جاتی ہے آج بھی محروم اور پسماند ہ رکھا جا تا دنیا کا یہ ظالمانہ رویہ دیکھ کر مجھے 1991میں ہیلی فیکس بر طانیہ میں میلا د النبی ﷺ کے شاندار جلوس میں سیا ہ فام حبشی کی وہ شاندار نعت یاد آگئی جس نے پو ری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ایک آزاد نظم جس میں ذوق و وجدان کی پو ری دنیا آباد تھی اِس نظم کا مفہوم ایسے تھا ۔ زمین و آسمان کے خالق نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا مقدر بھی لکھ دیا دولت مند کو آسودگی ملی اور غریب کو فاقہ مستی ایک میں تھا کہ رب نے مجھے کالی رنگت دی اور پھر دنیا کے کسی خطے نے مجھے قبول نہ کیا گو ری نے مجھے غلامی کی زنجیریں پہنا دیں اور حقارت سے کہا تم کالے ہو تم صدیوں سے غلام ابنِ غلام ہو میری غلامی کرو میرے مو یشی چرا میری زمینوں پر ہل چلا کہ تم محکوم اور غلام ہو اورپھر میں نسل در نسل پستارہا پھر قدرت کو رحم آیا عرب کے صحرا سے خطہ بے آب ہو گیا وہاں سے ایک پیکر رحمت اٹھا اس نے ہا تھ پھیلا کر مجھے اپنی طرف بلا یا کہ آ میں تمہا ری زنجیریں توڑنے والاہوں تمہیں مبا رک ہو آج کے بعد کسی گو رے کو تم پر کو ئی فضیلت نہ ہو گی وہ کون تھا ؟ جس نے مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیا محمد ﷺ بلال حبشی کے آقا محمد ﷺ ۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے