شعور،لاشعور،آگہی اورسیاسی بیانئے
شعور، لاشعور اور تحت الشعور انسانی دماغ کے تین افعال ہیں۔ شعور ظاہری اور لاشعور باطنی فعل ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ شعور کی مثال کمپیوٹر کے سی پی یو کی ہے جو معلومات کو پروسیس کرتا ہے لیکن معلومات کو سٹور نہیں کر سکتا یعنی اس میں معلومات کا ذخیرہ وقتی طور پر ہوتا ہے۔ لاشعور معلومات کو پروسیس بھی کرتا ہے اور سٹور بھی کرتا ہے جبکہ تحت الشعور صرف اور صرف معلومات کو سٹور کرتا ہے۔
ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہمارے حواسِ خمسہ کے ذریعے سے ہمارے شعور میں پہنچ جاتا ہے جو ہمارے کلچر، مذہب ایمان، تربیت اور رہن سہن کے فلٹرز سے چھن کر شعور کی سطح پر اجاگر ہوتا ہے اور شعور اس کا کوئی مطلب اخذ کرتا ہے۔ شعور اور لاشعور کو سمجھنے کے لےے ایک مثال سے مدد لیتے ہیں۔ آپ کسی جگہ پہلی دفعہ جاتے ہیں تو آپ کو راستا کھلی آنکھوں اور پورے ہوش و حواس سے طے کرنا ہوتا ہے لیکن جب آپ اس جگہ متعدد بار جاتے ہیں تو آپ کا شعور سارے پروسیس سے لاپروا ہو کر اسے شعور کے حوالے کر کے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ پھر آپ کا لاشعور آپ کو بتاتا ہے کہ کہاں سے مڑنا ہے، کس جگہ روڈ خراب ہے، کہاں پر رکاوٹیں ہیں وغیرہ۔ ہماری یادداشت شعور سے لاشعور میں محفوظ ہو جاتی ہے اور جب کافی عرصے تک استعمال نہیں ہوتی تو بالآخر تحت الشعور میں چلی جاتی ہے
شعور سے کیا گیا فیصلہ ہمیشہ یا مکمل درست نہیں ہوتا کیونکہ شعور کمزور ہے جبکہ لاشعور مضبوط ہوتا ہے۔ لاشعور کو آپ دل کی آواز بھی کہہ سکتے ہیں یا اسے الہام سے بھی تشبیہہ دی جا سکتی ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق ہماری ہائر سیلف سے ہے۔ لاشعور کی طاقت کا اندازہ آپ اپنے خوابوں سے لگا سکتے ہیں۔ خواب کتنے تخلیقی ہوتے ہیں آپ جاگتے میں ایسا خواب نہیں بُن سکتے۔ شاعر کو آمد ہونا لاشعوری کوشش ہے، یہی وجہ ہے کہ آورد کے سہارے لکھی گئی شاعری وہ اثر نہیں رکھتی جو اثر آمد کی شاعری رکھتی ہے۔
سیاسی لیڈرز شعور اور لاشعور کے ان افعال سے بھر پور آگاہی رکھتے ہیں۔ وہ شعور کو متاثر کرنے کے لےے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور
عوام کے مسائل کو سامنے رکھ کر نعرے تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔ مثلاً 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر عوام میں مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ 2018 میں عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بد قسمتی سے دونوں ہی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ بھٹو نے 1970 میں جو نعرہ دیا تھا اس کے بل بوتے پر انہوں نے انتخابات جیت کر حکومت بنا لی مگر عوام سے کیا گیا وعدہ پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے عوامی مقبولیت کھو بیٹھے جس کے نتیجے میں 1976 کے انتخابات میں انہیں بدترین دھاندلی کرنی پڑی مگر یہ دھاندلی انہیں تختہ دار تک لے جانے کا باعث بن گئی۔ 2018 میں عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا دعویٰ کر کے مقبولیت تو حاصل کر لی مگر عملی طور پر ناکام ثابت ہونے کے بعد عوامی مقبولیت بری طرح کھو بیٹھے۔ ان کی خوش قسمتی رہی کہ ان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہو گئی اور وہ مظلوم بن گئے مگر حکومت سے ہٹنے کے بعد انہوں نے اپنے مقبول نعروں کو کہیں دفن کر دیا ہے۔ اب وہ عوامی مسائل کی بات ہی نہیں کرتے، چند دن ایبسولوٹلی ناٹ کا نعرہ دے کر توجہ حاصل کرنے کے بعد جب اس نعرے کا پول کھلا تو اسے بھی ترک کر دیا۔ اب فوج کو مطعون کرنے کا سوچا گیا، نیوٹرل کو جانور تک کہہ کر تضحیک کی گئی مگر اس نعرے کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب پسِ پردہ فوج سے مذاکرات کا راز آشکار ہو گیا۔ حقیقی آزادی کا کچھ عرصہ ڈول ڈالا گیا مگر امریکہ اور فوج کی طرف دوستی کے ہاتھ بڑھا کر اس بیانیہ کو بھی خود ہی تہہ تیغ کر دیا گیا۔ اب نئی ہدایت کے تحت ورکرز کی جانب سے فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ اب پاک فوج زندہ باد کا نیا بیانیہ بنایا گیا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان، ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نعرے اور دعوے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جذباتی نعرے اور بیانیئے تشکیل دے کر لوگوں کے شعور کو متاثر کرتے ہیں۔ اور جب دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے لاشعور نے ان کے دعووں کو پروسیس کر کے حقائق تک پہنچنا شروع کر دیا ہے تو وہ نئے نعرے کے ساتھ نیا بیانیہ گھڑ کر سامنے لے آتے ہیں اور اس کا پرچار اس شدو مد سے کرتے ہیں کہ پرانا بیانیہ تحت الشعور کی گہرائیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مخالفین بیانیئے گھڑنے میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔
مگر ٹھہریے! نعرہ ان کے مخالفین نے بھی دیا تھا جس پراب یو-ٹرن لے لیا گیا ہے۔عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لائے جانے سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے اسلام آبادتک مشہورِ زمانہ مہنگائی مارچ کیا تھا جسے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ تب بھی عوام کے جذبات سے خوب کھیلا گیا تھا بلکہ ان کے جذبات کا استحصال کیا گیا کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت عوام کو ریلیف تو کیا دیتی مہنگائی کو پرانی سطح پر بھی برقرار نہ رکھ سکی۔ عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی ہونے کے باوجود پاکستان میں اس کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے، پی ڈی ایم والے چاہتے ہیں کہ عوام اس معاملے کو تحت الشعور کی آخری گہرائی میں دفن کر دے جبکہ عوام جب بھی بازار میں جا کر خریداری کرتے ہیں تو قیمتیں سن کر ان کا لاشعور پراسیسنگ کا عمل شروع کر دیتا ہے۔
بلاول آج کل مسلم لیگ ن کو مہنگائی لیگ کا نام دے کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کبھی ووٹ کو عزت
دینے کی بات کیا کرتے تھے۔ اب نہیں کرتے۔