ہوشیار! آسان قرضوں کے جال میں مت پھنسیں
آج کل سوشل میڈیا پر ایسی ایپس متعارف کروائی جا رہی ہیں جن کے ذریعے آپ چند منٹوں میں ایک لاکھ روپے تک کا قرضہ حاصل کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کو اس کے لےے نہ تو کوئی ڈاکومنٹیشن کرنا پڑتی ہے نہ ہی ضمانتی دینے پڑتے ہیں۔ آپ خود ہی اپنے ضامن ہوتے ہیں۔ آپ ویب سائٹ پر جا کر ممبرشپ حاصل کیجےے۔ اپنے متعلق آسان سی معلومات مہیا کیجےے۔ رقم جھٹ پٹ آپ کے اکاﺅنٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ بقول قرض خواہ کے آپ کو اس رقم پر روزانہ کے حساب سے ”معمولی سا منافع“ یعنی سود ادا کرنا پڑے گا۔
آئیے پہلے اس معمولی سے منافع کا جائزہ لیتے ہوئے ان لوگوں کے طریقہ کار کو محترم حاشر ابنِ ارشاد کے شکریے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
”سوشل میڈیا پر ان دنوں کثرت سے متعدد آن لائن ایپ کے اشتہارات دکھائی دیتے ہیں۔ جو لوگوں کو ”آسان” قرضے فراہم کرتی ہیں
اگر آپ فائن پرنٹ میں دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اوسط شرح سود %0.8 روزانہ ہے۔ اب اس کا مطلب کیا ہے۔
ایک سادہ لوح آدمی کو یہ شرح سود بہت کم لگے گی لیکن یہ ایک ٹریپ ہے۔ یاد رکھیے کہ مالیات کی دنیا میں شرح سود ہمیشہ سالانہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی ماہانہ یا روزانہ کی بنیاد پر شرح سود بتا رہا ہے تو اصل شرح سود دکھائی دینے والی شرح سود سے بہت زیادہ ہو گی۔
زیادہ پیچیدگی میں جائے بغیر، اس وقت عام بینک سالانہ کنزیومر لون پر کوئی %26 کے قریب شرح سود رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ کمپا¶نڈنگ روزانہ کی بنیاد پر ہے اس لیے اصل میں آپ کو سال میں کوئی %29 سود دینا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے ایک لاکھ قرضہ لیا تو سال بعد آپ 129,000روپے بینک کو دینے کے پابند ہوں گے۔
اس کے مقابلے میں اس”آسان” قرضہ سکیم پر نظر ڈالےے۔ اگر روزانہ کا سود الگ لگایا جائے تو ایک لاکھ روپے کے بدلے %0.8 کا مطلب ہے روز کے 800 روپے اور سال بھر میں صرف سود کی مد میں رقم 292,000 بن جائے گی یعنی اصل زر ایک لاکھ ملا کر ایک سال بعد ادا کی جانے والی رقم 392,000 ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سود کی حقیقی شرح %292 ہے۔
اگر واقعی کسی ”خوش قسمت” کو %0.3 پر بھی قرضہ ملے تو بھی افیکٹو شرح سود %109 ہو گی یعنی سال بعد 100,000 کے بدلے 209,000 کی واپسی کرنا ہو گی۔
اور کہیں %0.8 روزانہ پر سود مرکب لگے تو پھر آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ سود کہاں جائے گا۔ سود مرکب کا فارمولا یہ کہتا ہے کہ یہ شرح %1732 ہو جائے گی۔ اس لیے ہم اسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ گرچہ کم مدتی قرضوں پر بعید نہیں کہ یہ شرح لگا کر سود وصول کیا جائے۔ یعنی ایک روپے پر سالانہ 1732 روپے۔ اور ایک لاکھ قرض لے کر آپ کے ذمہ سال کے آخر میں جو رقم واجب الادا ہو گی وہ سترہ کروڑ بتیس لاکھ روپے (173200000) بن جائے گی
سو مختصر موازنہ یہ رہا۔
بینک کی سالانہ شرح سود %26
بینک کی افیکٹو شرح سود %29
ایپ کی روزانہ شرح سود %0.8
ایپ کی افیکٹو شرح سود سالانہ %292“
ان ایپس کی ترغیبات سے بظاہر تو لگتا ہے کہ ہم انہیں لوٹ رہے ہیں لیکن ان کا شکار ہونے والے بتاتے ہیں کہ جو ایک بار ان کے چنگل میں پھنس جائیں وہ زندگی بھر اس سے نکل نہیں پاتے گویا یہ جدید دور کے بنیئے ہیں جو اپنے شکار کو ڈھیل تو دیتے رہتے ہیں مگر رسی کو اتنا دراز کبھی نہیں کرتے کہ شکار ان کی دسترس سے دور نکل جائے۔ ان کی ڈھیل شکار کی آسانی کے لےے نہیں بلکہ جال کی مزید مضبوطی کے لےے ہوتی ہے جس میں انہوں نے شکار کو جکڑا ہوتا ہے۔ لوگوں نے اپنی کل جائیدادیں بیچ کر تمام جمع پونجی ان لوگوں کے حوالے کر دی مگر پھر بھی ان کے قرض کی پوری ادائیگی نہ کر سکے۔ کچھ تو تنگ آ کر خودکشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا بیٹھے۔
اسی لےے تو سُود کو حرام ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کہا گیا ہے۔
یاد رکھیے! قناعت پسندی زندگی گزارنے کا سنہرا اصول ہے۔ جتنی چادر ہو اتنے ہی پاﺅں پھیلائیں ۔ اپنی آمدنی میں گزارا کرنا سیکھیں۔ خواہشات اور تعیشات کو ضروریات مت بنائیں۔ کوشش کریں کہ اپنی آمدنی کا پندرہ سے بیس فیصد ہر ماہ بچا کر رکھتے جائیں تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اپنے اندر قربانی دینے کا جذبہ پیدا کریں ۔ ترجیحات کی فہرست بنایا کریں۔ فوری ضروریات کو فوقیت دیں۔ دیگر ضروریات فوری طور پر پوری نہ ہوں تو صبر سے کام لیں۔ حتی الوسع کوشش کریں کہ کسی سے قرض مانگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ تاہم قرض لینا ناگزیر ہو جائے تو کسی رشتہ دار یا جاننے والے سے قرض لینے کی کوشش کریں اور مقررہ مدت میں ادائیگی کا بندوبست کریں۔ کچھ بھی ہو جائے، سودخور ایپس کے قریب بھی مت جائیں۔ ورنہ یہ لوگ ایسی امبربیل ثابت ہوں گے جو آپ کی
رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیں گے۔
”ہوشیار رہیے۔ ان ”آسان” قرضوں کے جال میں مت پھنسیے“