عمل کا ردعمل

عمل کا ردعمل

ابھی منظرنامہ واضح نہیں لیکن لگتاہے 2024 ءمیں ہونے والے عام انتخابات بہت ہنگامہ خیز ثابت ہوں گے کچھ تو اس الیکشن کو خونی بھی قرار دے رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں عدم برداشت آخری حدوںکو چھورہی ہے پھر جب مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جائے تو عمل کا رد ِ عمل ضرور آتاہے اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہےے کہ میاں نوازشریف کو ایک بارپھر وزیر ِ اعظم بننے کے لئے کوئی بھی بیانیہ اختیار کرناپڑے وہ کرگذرےں گے ابھی الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں کون جیتے گا اس بارے بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا لیکن میاں نوازشریف نے اپنی بھری بھرکم کابینہ تشکیل بھی دے دی ہے جبکہ ان کے سیاسی حریف عمران خان کو سائفر کیس میں ریلیف ملنے کے باوجود ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں ہر آنے والے دن میں موصوف کے لئے عجیب و غریب اور نت نئی باتوںکا انکشاف ہورہاہے لوگوںکے ذہنوںمیں ایک سوال گردش کررہاہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کی کردارکشی کرکے ان کی شخصیت کو مسخ کےا جارہا ہو شاید ان کے سیاسی مخالفین ایسا ہی چاہتے ہیں جبکہ تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکا الزام ہے کہ عمران خان کا الیکشن میں حصہ لینا سیاست اور جمہوریت پر قابض مافیا کے لیے ڈراو¿نا خواب بن چکا ہے وہ ہرقیمت پر عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بدترین شکست ان کا مقدر ہے! اس لیے ہر قسم کا حربہ آزما کر عمران خان کو الیکشن سے باہر کرنا چاہتے ہیں بانی پی ٹی آئی کے حلقہ این اے 89 میانوالی سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے گئے جبکہ لاہور کے حلقہ122سے بھی کاغذات ِ نامزدگی جع کروائے جاچکے ہیں ا±ن کے وکیل رائے محمد علی کا کہنا تھا کہ عمران خان میانوالی، لاہور اور اسلام آباد سے الیکشن لڑیں گے اب جن لوگوںکی یہ دلی خواوش تھی کہ عمران خان کو سیاست سے OUT کردیں گے ان کی امیدوں پر پانی پڑگیاہے اب جبکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں ہے بہرحال ملک کی انتخابی تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابی نشان واپس لینے انتخابی عمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر اسے عوام کی بھرپور اور گہری حمایت حاصل ہو۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نشان ”تلوار“ کو 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں الیکشن کمیشن کی فہرست سے حذف کر دیا گیا تھا پھر قومی اتحاد کے انتخابی نشان ہل کو کالعدم قراردیدیان کی امیدوں پر پانی پڑگیاہے اب جبکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں ہے بہرحال ملک کی انتخابی تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابی نشان واپس لینے انتخابی عمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر اسے عوام کی بھرپور اور گہری حمایت حاصل ہو۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نشان ”تلوار“ کو 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں الیکشن کمیشن کی فہرست سے حذف کر دیا گیا تھا پھر قومی اتحاد کے انتخابی نشان ہل کو کالعدم قراردیدیا محترمہ بے نظیر بھٹو 1988 کے عام انتخابات میں تیرکے نشان کے ساتھ کامیاب ہوگئیں تھیں۔ 1988 میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 207 میں سے 94 نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ آج سیاسی صورت ِ حال کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ عمران خان کو بھی ذوالفقارعلی بھٹو جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ ا مزے کی حقیقت یہ ہے آج عمران خان کے جتنے بھی سیاسی مخالفین ہیں انہوں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک چلائی تھی جس کے بعد اس وقت کے آرمی چیف ضیاءالحق نے اقتدارپر قبضہ کرلیا تھا فی الوقت ٹھنڈے ٹھار ماحول میں کاغذات ِ نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ جاری ہے 8فروری 2024 کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے سلسلہ میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ جمعہ کے روز بھی جاری رہا۔نواز شریف، بلاول لاہور، عمران خان میانوالی، فضل الرحمن کے ڈی آئیخان سے کاغذات جمع ہوگئے جبکہ الیکشن کمیشن نےکاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں دو دن کی توسیع کردی ہے ۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 130 سے الیکشن لڑیں گے جبکہ ان کے بطور کورنگ امیدوار بلال یاسین ہوں گے جوپنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 174 سے الیکشن لڑیں گے ۔استحکام پاکستان پارٹی کے رہنماوں سربراہ استحکامِ پاکستان پارٹی جہانگیر ترین نے لودھراں کے حلقے این اے 155 سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے۔ عمران خان حلقہ 89 میانوالی ون ، نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمن سمیت قومی سیاست میں بڑے نام8 فروری کو قومی اسمبلی کاالیکشن لڑیں گے۔ مریم نواز شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 143 سے الیکشن میں حصہ لیں گی۔ استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین جہانگیر ترین نے لودھراں جبکہ صدر عبدالعلیم خان نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقوں سے سے کاغذات نامزدگی داخل کرا دئیے ہیں جبکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے دیراور ح±روں کے روحانی پیشوا اور جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا نے خیر پور سندھ سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ۔جہانگیر ترین،شہباز شریف، مریم نواز، عون چوہدری ، پرویز اشرف،فاروق ستار ، پرویز خٹک، عطا تارڑ، ندیم چن کے کاغذات بھی جمع ہوگئے ،عون چوہدری نے حلقہ این اے 124 ؛ 127 اور پی پی 163 سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئیے،صدر لاہور ڈویڑن آئی پی پی مراد راس نے لاہور میں پنجاب اسمبلی کی نشست کےلئے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ۔ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کی طرف سے جنرل اور مخصوص نشستوں پر این اے 52 سے راجہ پرویز اشرف ، اور پی پی 8 سے خرم پرویز راجہ،پی پی 9سے چودھری محمد سرفراز،پی پی 25سے تسنیم ناصر گجر، این اے 98 اور پی پی 104سے رانا فاروق سعید،پی پی 96 سے سید حسن مرتضی،این اے 127سے فیصل میر نے ،پی پی 162 سے خرم فاروق ایڈوکیٹ،این اے 131سے چودھری منظور،پی پی 177سے آصف کھوکھر، پی پی 178سے شہیم صفدر اور مقبول ٹولو،پی پی 171سے شکیل پاشا ،این اے 73 رانا محمود اشرف،پی پی 165 لاہور،رانا صفدر دلشاد،پی پی 50سیالکوٹ مقصود اشرف،پی پی 101 فیصل آباد محمد اشرف ،این اے 137 اور پی پی 186 سےعلی حسنین شاہ نقوی،این اے 51اور پی پی 7 سے چودھری ظہیر سلطان،این اے 71 سیالکوٹ ،احسن زاہد،پی پی 139 ملک جمشید شہباز۔ پی ۔ پی 111 میاں اشفاق حسین، پی پی 20 سے علی قربان اور این اے 114 سے سردار آصف احمد ،پی پی 36 طاہر چیمہ،پی پی 11سے اسفند یار راجہ نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے گئے۔ کچھ لوگوںنے دعویٰ کیاہے کہ میاں نوازشریف،مریم نواز اور شہباز شریف لاہور سے الیکشن نہیں لڑیں گے کیونکہ ان کے خیال میں لاہور میں شریف فیملی کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے مریم نواز اوکاڑہ، میاںنوازشریف مانسہرہ اور میاں شہباز شریف کراچی سے الیکشن لڑنے کےلئے حکمت ِ عملی تیارکررہے ہیںکسی بھی مقبول سیاسی رہنما کو دیوارسے لگانا یا اس کو ملکی سیاست سے مائنس کرنا کوئی آسان بات نہیں اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ نصف صدی بعد بھی ذوالفقار علی بھٹوکے نام پر پیپلز پارٹی ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے اسی طرح عمران خان کو مائنس کرنے والے غلطی پرہیں کیونکہ عوام کا یہ استحقاق ہے کہ وہ جس کو چاہیں کامیاب کریں جس کو چاہےں مستردکردیں سلطانی ¿ جمہورکا یہی فلسفہ ہے۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے