ہمیں ادارک ہونا چاہیئے

ہمیں ادارک ہونا چاہیئے

52سال پہلے عالم ِ اسلام پرجو سانحہ بیتا اس کی کسک آج بھی محب وطن محسوس کرتے ہیں جب بھی یاد آتی ہے سینے فگار،روح زخمی اور چہرہ چہرہ سوالیہ نشان بن جاتاہے ایسی شکست،ایسی ہزیمت،ایسی شرمندگی کہ جب خیال آتاہے دل سے دھواں سا اٹھتا محسوس ہوتاہے16دسمبر بلاشبہ سقوط ِ ڈھاکہ عالم ِ اسلام کے لئے سقوط ِ بغداد کے بعد سب سے بڑا سانحہ ہے پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں ملک کو دو لخت ہونے کے نصف صدی بعدبھی یہ سوال اکثر سلگتارہتاہے کہ اب کیا ہوگا؟ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ پریشان کن سوال اس لئے بھی سر اٹھاتارہتاہے کہ پہلے سے بھی زیادہ سنگین خطرات میں گھرے پاکستان کو دیکھ کر آنکھیں نمناک اور سوچیں متفکر ہوجاتیں ہیںکہ ہر سال ماہ ِ دسمبرمیں ایسی سوچیں حاوی اس لئے بھی ہوجاتیں ہیں کہ ہم نے 1971ءسے کوئی سبق حاصل نہیں کیا حالانکہ ملک کے دولخت ہونے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے ملک کی قومی سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں سے ملک کی سلامتی و بقاءکیلئے فکرمند ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کرنے کی متقاضی تھی آج بھی اقتدارکی غلام گردشوںمیں ماضی کا بھیانک کھیل کھیلا جارہاہے ۔
ہو سکتاہے کسی کے لئے یہ ملک محرومیوں کی لمبی داستان ہے جوسسکتے ارمانوںکے ساتھ زندگی کے دن پورے کررہے ہیں جن پر زندگی تنگ کردی گئی ہے ۔ اس ملک نے ہرکسی کو کچھ نہ کچھ ضرور عطا کیاہے لیکن پاکستان کو کسی نے کچھ نہیں دیا بلکہ اس کےلئے کبھی سوچا تک نہیں یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے یہ جو بڑے بڑے افسر،سرمایہ دار، جاگیردار،وزیر مشیر ہمیں نظر آتے ہیں جن کی گردنیں اتنی موٹی ہیں کہ کوشش کے باوجود مڑنہیں پاتیں پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو بنئے سے محنت مزدوری کی اجرت لینے کے لئے گھنٹوں قطارمیں کھڑے رہتے الحمد اللہ آج ہم آزاد فضاﺅں میں سانس لے رہے ہیں یہ آزادی ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی یہ ملک ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی تھیں ہزاروں ماﺅں،بہنوں بیٹیوں نے اس پاک دھرتی کے حصول کےلئے اپنی عصمت قربان کردی،سینکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندوﺅں،سکھوں نے اپنی رکھیل بنا ڈالا جن میں درجنوں آ ج بھی زندہ ہوں گی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا اتنا بڑا جرم بن گیا تھا ظالموں نے بے شمار ماﺅں کے جگر گوشوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا ۔ یہ پاکھنڈی دانشورجو آج ایکتا کے نعرے لگاتے ہیں اس وقت کہاں تھے جب جنوبی ایشیاءکے مسلمانوںپر اتنے ظلم ہوئے کہ امریتا پریتم جیسے شاعرہ بھی خون کے آنسو روتے دہائیاں دینے لگی اپنے آپ کو پنجابی کہنے والے سکھوں نے پنجابی قوم پر ہی سب سے زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑڈالے انہوںنے ماں بولی کا بھی خیال نہ کیا کاش انڈیا سے پاکستان آنے والی اس خون میں ڈوبی ریل گاڑی کو قومی عجائب گھر میں رکھا جاتا جس میں کٹے پھٹے اپنے ہی لہو میں نہائے زخمیوں، بے گناہ مسلمانوںکی لاشوں اور زخموں سے چیختی نوجوان لڑکیوں، ماﺅں سے چھاتی سے چمٹے معصوم بچوں کی لاشیں تھیں جن کا کوئی جرم نہ تھا جن کو ناحق ماردیا گیا قومی المیہ یہ ہے کہ جن قوتوںنے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا وہ سازش، دھونس اور جبر سے اس ملک کے وارث بن بیٹھے وہ آج بھی ہم سے پاکستان بنانے کے جرم کا انتقام لے رہے ہیں بس انداز بدل گیا ان کا ذہن آج بھی 1947ءجیساہے ہماری سمجھ میں بات نہیں آرہی، یہی پاکستان کے دشمن کبھی ڈیم نہیں بننے دیتے،کبھی حکومتوںکو عدم سیاسی استحکام سے دوچار کردیتے ہیں ،کبھی معاشی طورپر کمزور کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے مفادات کےلئے حکومتوںکو بلیک میل کرتے ہیں اورہمارے ناعاقبت حکمران ہرقیمت پر اقتدار میں رہنے کی خاطر ان سے بلیک میل ہوتے رہتے ہیں جس سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کسی کو پاکستان کی فکرنہیں ان بھیانک چہروں نے 22کروڑ عوام کو خوشیوں کو یرغمال بنایا ہواہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہر محب ِو طن پاکستانی ان کے نام اور مکروہ چہروںکو بخوبی جانتا اور پہچانتاہے یہ اس وقت بھی اقلیت میں تھے آج بھی اقلیت میں ہیں اور اقلیت میں لوگ ہمیشہ منظم ہوتے ہیں ان لوگوںنے پاکستان کے سارے سسٹم کو یرغمال بنارکھا ہے پاکستان یہ دشمن مذہب، صحافت، کاروبار سمیت زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں حکومت جمہوری ہو یا ڈکٹیٹروںکی کبھی یہ لوگ ملکی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہچنے د یتے ان مکروہ چہروںنے غربت کو پاکستانیوںکے لئے بدنصیبی بنا دیاہے تمام محب وطن سیاستدانوں کو یہی گذارش ہے اب یہ بلیک میلنگ بند ہونی چاہےے آپ تھوڑی سی قربانی دے لیں حالانکہ سب سے بڑی قربانی قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے دی تھی قائد اعظم ؒ نے پاکستان کو زندگی کا مشن بنایا اور آپ کا مقصد ِ حیات پیسہ ۔۔پیسہ اور فقط پیسہ ہے کچھ تو خدا کا خوف کھائیں قائد اعظمؒ نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا کہ یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو کرپشن ہو، لیڈر شپ کو مثالی ہونا چاہیے ، لیڈر پہلے خود مثال بنتا ہے پھر لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یادرکھوپاکستان کسی نے ہمیں تحفے میں نہیں دیا اس کے لئے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوںکو شہیدکردیا گیا کئی کئی روز ان کی بے گورو کفن لاشیں کھلے آسمان تلے پڑی رہیں، ہندو ،سکھ بلوائی ہزاروں مسلمان جوان لڑکیوںکو اٹھاکرلے گئے،ہزاروںکی عصمت دری کی گئی پاکستان محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں اس کے حصول کےلئے جو قربانیاں دی گئیں تھیں آج کے ان نوجوانوںکو اندازہ نہیں جو14اگست کو جشن ِ آزادی مناتے ہوئے انڈین گانوںپر مزے سے ناچتے پھرتے ہیں یا وہ بچے جو گلیوں،سڑکوں پر موٹر سائیکل سے سلنسر اتارکر غل غپاڑہ کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انہوںنے تو نظریاتی و جغرافیائی سرحدو ں کی حفا ظت کرنا تھی ہماری سیاسی وعسکری کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہےے کہ آج بھی نظریہ ¿ پاکستان کے مخالف، قائد ِ اعظمؒ کے سیاسی حریف اور اس ملک کی ترقی کے دشمنوںکو اعلانیہ ،غیر اعلانیہ اتحاد ہے جبکہ محب ِ وطن عناصر منتشرہیں نصف صدی بعدبھی یہ سوال سلگتے رہتاہے کہ اب کیا ہوگا؟ پاکستان کا کیا بنے گا؟ اداروںکی ناکامی کا بین ثبوت ہے اس ماحول میں 52سال پہلے عالم ِ اسلام پرجو سانحہ بیتا شاید ہم نے اسے فراموش کردیا اور حال مست مال مست بن گئے خدارا سب کوحا لات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہےے کیونکہ آج بھی ملک میں بدامنی، فوجی قافلوںپر حملے، دہشت گردی،غربت، مہنگائی،انتہاپسندی کے عفریت سے پوری پاکستانی قوم عاجز آئی ہوئی ہے اور حالات بہتر ہونے کی بجائے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوںکو پہلے سے زیادہ خطرات کا سامناہے ہمیں ادراک ہونا چاہےے کہ ہم مشکل میں ہیں پاکستان مشکل میں ہے اس مشکل سے ہم اتحاد، اتفاق سے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ان کا حق تسلیم کرنے سے نکل سکتے ہیں آئےے ہم سب مل کر دعا کریں کہ عالم ِاسلام کو تاقیامت کسی اور16دسمبرکا منحوس دن نہ دیکھنا پڑے آمین۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے