خوف خدا
ہر سال کی طرح اِس سال کا سورج بھی طلوع ہو چکا ہے جس دن سے پچھلے سال کا سورج غروب ہوا ہے دنیا بھر کے ملکوں میں رسم و رواج تاریخی روایتوں کے مطابق نئے سال کو خو ش آمدیدکہا جا رہا ہے دنیا بھر کے لوگ اپنی مذہبی سماجی روایات کے مطابق نئے سال کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے دنیا بھر کے لوگ اپنی مذہبی سماجی روایات کے مطابق مختلف تقریبات کے ذریعے نئے سال کو منارہے ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر پسماندہ ملک کے باسی ترقی یافتہ مغربی ممالک کی اندھی تقلید کر تے ہوئے پاکستان میں بھی شراب شباب کباب اور برقی قمقوں کی بہار کے ساتھ تقریبات کا اہتمام کر کے مغرب پرستی اور ترقی پسند کا ثبوت دینے کی کو ششوں میں لگے ہو ئے ہیں پاکستان کے بانجھ معاشرے میں زندہ حقیقی انسان تو ختم ہی ہو گئے ہیں جو خود بھی انسان کہلائیں اور دوسروں کو بھی مکمل انسان سمجھیں جو خود بھی زندہ رہیں اور دوسروں کو بھی آزادی سے زندہ رہنے کا حق دیں جن کو اپنی عزت نفس کے ساتھ دوسروں کی عزت کا بھی اتنا ہی خیال ہو جو خود تو امن پسند ہو ہی دوسروں کے امن کو بھی خراب نہ کریں اِسی امن اور انسان دوستی کے لیے ہردور میں خدا کے بر گزیدہ بندے مادیت پرستی میں غرق انسانوں کوجگانے کا کام کر تے رہے کہ لوگوں تم جتنی جلدی ناگزیر ت کے خول سے نکل آﺅ گے اتنا ہی جلدی دنیا صالح معاشرے میں ڈھل جائے گی انصاف پر مبنی معاشرے قائم ہو نگے اہل حق اِسی لیے ہر دور میں سمجھاتے رہے کہ جتنی جلدی تم ناگزریت کے خول سے نکل آﺅ گے اتنی جلدی ہی معاشرہ انصاف پر کھڑا ہو جائے گا انسانوں کو انصاف ملے گا آبادیاں سکھ امن کا گہوارہ بن جائیں گی جو لوگ خود کو ضروری سمجھتے ہیں کہ جن کے دم سے نبض کائنات چلتی تھی جن کے دم سے شہروں کی محفلیں آباد تھیں اِن کا آج نام و نشان نہیں یا قبرستانوں کے قبرستان آج ایسے ضروری لوگوں کے ٹھنڈے جسموں سے بھرے پڑے ہیں جن کے دم سے شہروں کے دل دھڑکتے تھے انسان کا جب دل دھڑکےتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اُس کی اوقات کیا ہے یہاں تو وہ ناگزیر جن کے سر کی کلغی کو ہ ہمالیہ سے ٹکراتی تھی کب کے مٹی کے ڈھیر میں بد ل گئے۔
قتال جہاں معشوق جو تھے سونے پڑے ہیں مرقد ان کے
یا مرنے والے لاکھوں تھے یا رونے والا کوئی نہیں
فرعون اپنے دور کا سب سے بڑ ا ناگزیر جس نے خدائی دعوی کر دیا تھا کس طرح دریائے نیل کے پانی میں شکر کی طرح گھل گیا لال قلعہ الحمرا قلعہ شاہی قلعہ شہزادوں حوروں سے آباد تھے آج چمگادڑوں کی آما جگاہ ہیں یہاں کے مسکینوں کو بھی اپنے ضروی ہونے کا احساس تھا لیکن آج زمین کے نیچے اور یہ مختلف اینٹوں اور کھنڈرات میں نشان عبرت بن چکے ہیں دنیا میں موجودفرعونوں کو ہر روز قبرستانوں کا مشاہدہ کر تے رہنا چاہیے یہاں جو محو خواب ہیں وہ بھی کبھی کہا کرتے تھے کہ زمانہ ہمارے دم سے ہی آباد اور چلتا ہے اور آج کتنے موسم سردیاں گرمیاں قید تنہائی میں گزر رہے ہیں جبکہ شہر اور نبض کائنات ویسے ہی دھڑک رہی ہے مادیت پرستی کے اِس ہو شربا ماحول میں جہاں ترقی اور مادیت پرستی کے طلسم نے مادی انسانوں کو اپنے نظاروں میں غرق کر رکھا ہے یاد رکھنا چاہیے کہ آج جو لوگ اِس دھرتی کی رونقوں کوآباد رکھے ہوئے ہیں کل کو یہاں کچھ اور لوگ بھی تھے جو آج یہاں نہیں ہیں جن کے جسموں میں سوراخ اور ہڈیاں چورا بن چکی ہیں مادیت پرستی کے طلسم میں غرق چند لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوف خدا کی دولت سے مالا مال ہو تے ہیں جو اِس مادی دنیا میں رہتے ضرور ہیں لیکن یہ دنیا اِن کے دلوں میں آباد نہیں ہوتی اِن کے باطن قلب و روح میںخو ف خدا کے چراغ روشن ہوتے ہیں جن سے مادی دنیا کی کشش پھیکی پڑتی رہتی ہے یہ ایسے انٹینے ان کے باطن میں لگے ہوتے ہیں جو برائی گناہ سے دور رکھتے ہیں میری زندگی میں ایسے چند ہی لوگ ہیں جو خوف خدا کی دولت سے مالا مال ہیںجو جو ان دولت مند صاحب اقتدار تھے جن کو جب بھی گناہ کا موقع ملا اِن کے باطن میں روشن خوف خدا کے چراغ نے انہیں گناہ سے دور رکھا ایسا ہی ایک جوان تنویر شیخ مجھے پچیس سال پہلے کوہ مری کی حسین وادی میں ملا ان دنوں میں راہ حق کا نیا نیا مسافر بنا تھا پامسٹری علم الاعداد کا چسکا زوروں پر تھا میں انسانوں کا مطالعہ دن رات مشاہدے کے ساتھ کرتا کہ اللہ تعالی نے کیسے کیسے انسان اِس دھرتی پر بھیجے ہیں اچھائی برائی نیکی بدی کا معیار کیا ہے لوگ کیوں گناہ سے دور نہیں رہتے جو گناہ یا دنیا کی لذتوں میں غرق ہیں وہ کون ہیں جو تقوے کی اعلیٰ اونچائی پر فائز ہیں تقوے کی اصل وجہ یا بنیاد کیا ہے تنویر شیخ اپنے دوستوں کے ساتھ میرے گھر کے سامنے ٹہرا ہو اتھا دوستوں کے ساتھ چند دن کے لیے آیا تھا ایک رات جب آدھی رات سے زیادہ رات گزر چکی تو میں مراقبہ عبادت کے بعد لان میں آیا تو اِس کو وہاں اکیلے بیٹھا دیکھا تو حیران ہو کر اِس کے پاس جا کر بیٹھ گیا سامنے گھر سے میوزک کی اونچی آواز رات کے سناٹے کو مرتعش کر رہی تھی میں نے پوچھا نوجوان تم یہاں کیوں بیٹھے ہو تو بولا سر مجھے میوزک ناچ گانا زنا شراب وغیرہ سے بہت خوف آتا ہے میں دوستوں کے ساتھ یہاں آتو گیا ہوں لیکن جب رات کو انہوں نے شراب نوشی اورمیوزک شروع کی تو میں خوف خدا سے باہر نکل آیا میں صبح واپس چلا جاﺅں گا میرا دل ایسی محفلوں میں نہیں لگتا میری تنویر شیخ سے پہلی ملاقات ارب پتی خاندان کا وارث جس نے دولت کے جھولوں اور سونے کے برتنوں میں آنکھ کھولی میری شیخ سے دوستی ہو گئی آج وہ پچاس سال کراس کر گیا ہے میں پچھلے پچیس سالوں سے اُسے جانتا ہوں مجھے یہ ڈر تھا کہ یہ زنا نہیں تو دولت کے بل بوتے پر دوسری تیسری شادی ضرور کر ے گا لیکن نہیں اُس نے ایسا نہیں کیا چند دن پہلے مُجھ سے ملنے آیا تو میں نے پوچھا یا ر یہ بتاﺅ جب بھی گناہ یا عیاشی کا وقت آتا ہے تو کونسی طاقت تمہارا ہاتھ پکڑ کر روک لیتی ہے تو وہ بولا پروفیسر صاحب خوف خدا ۔مجھے دادا جان بچپن میں اپنے مرشد کے پاس لے جاتے تھے جو مجھے بہت پیار کرتے تھے میں ان کی گود میں بیٹھ کر ان کی صحبت انجوائے کرتا تھا انہوں نے بچپن میں یہ سبق دے دیا تھا شراب زنا سود ظلم کینہ بغض جھوٹ اور بہت سارے گناہ منع ہیں جب بھی کوئی ایسا موقع آئے تو خوف خدا کو یاد کر لینا تم گناہ سے بچ جاﺅ گے دادا مرشد کی یہ تعلیم اور صحبت کہ مجھے جب بھی موقع ملا خوف کا انٹینا آن ہوا اور میں برائی سے بچ گیا شیخ تنویر خوف خدا کی اُس نعمت سے مالا مال ہے کہ خوف خدا ہر بار اُس کو برائی سے بچا لیتا ہے اِس کو کہتے ہیں صحبت مرشد جو چند لمحوں میں انسان کے اندر کبھی نہ بجھنے والا خوف خدا کا چراغ روشن کر دیتی ہے ۔