وعدوں کی تکمیل کا وقت
عوامی نمائندوں کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کا وقت قریب آن پہنچا کیونکہ ن لیگ ، پیپلز پارٹی ، ایم ایم کیو ، (ق) لیگ ، آئی پی پی اور بی این پی کا وفاق میں اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کردیا ہے اگر کسی کو یاد ہو کہ الیکشن سے پہلے بلاول نے عام لوگوں کے لیے 300 یونٹ بجلی مفت ،مریم نواز نے 200 یونٹ بجلی مفت اور علیم خان موٹر سائیکل والوں کے لیے سستا پیٹرول اور 300 یونٹ بجلی مفت کرنے کا اعلان ببانگ دہل کیا تھا خیر سے الیکشن ہوگئے جسے کسی ایک جماعت نے بھی صاف شفاف نہیں کہا اب حکومت سازی کا عمل جاری ہے جس کے بعد وہ سب پارٹیا ں حکومت میں شامل ہو جائینگی جنہوں نے اپنے جلسوں میں عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا تھا اگر ان سب کے وعدوں کو اکٹھا کرلیا جائے تو پاکستان میں غریب آدمی کو تقریبا 8سو یونٹ بجلی مفت ملے گی لیکن ان باتوں کو چھوڑیں یہ سب پارٹیاں ملکر صرف 2سو یونٹ تک بجلی مفت کردیں تو میں سمجھونگا کہ یہ پارٹیاں اور انکے لیڈر ملک وقوم سے مخلص ہیں لیکن ان کی حکومت آتے ہی اگر بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت پیٹرول کی قیمت بھی بڑھ جائے تو پھر سمجھ لیں کہ سیاست عبادت نہیں بلکہ منافقت کا دوسرا نام ہے جو پارٹی لیڈر الیکشن سے پہلے ایک دوسرے کی خامیاں گنوا تے گنواتے نہیں تھکتے تھے اب وہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر بغل گیر ہو رہے ہیںتو سمجھ جائیں کہ انہیں ملک و قوم سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انہیں اپنی اور اپنے خاندان کی سیاست عزیز ہے میاں نواز شریف خاندان کی اگر بات کریں تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ساتویں بار اور وزارت اعظمیٰ پانچویں بار شریف خاندان کے ہی گھرجارہی ہے اور مریم نواز کی نامزدگی کے بعد شریف خاندان کے گھر کا چوتھا فرد وزیراعلیٰ پنجاب بنے گالیکن سوال یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے قرضے اور غربت کے باعث لوگوں کا معاشی نظام درہم برہم ہو چکا ہے پی ڈی ایم کے دور حکومت کے اثرات ابھی تک عوام کے ذہنوں سے نہیں نکل رہے جسکی وجہ سے پاکستان غربت میں خطرناک حد تک اضا فے سے دوچار ہے جبکہ وبائی امراض اور 2022 کے تباہ کن سیلاب کے پیچیدہ اثرات کی وجہ سے ابھی تک حالات غیر معمولی ہیں ایک اندازے کے مطابق 45.5فیصد آبادی جو کہ 110ملین افراد کے برابر ہے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ ووٹ ڈالے وہ بھی اس امید پر کہ شائد ان حکمرانوں کا کوئی ایک وعدہ ہی وفا ہوجائے اور وہ غربت کی دلدل سے باہر نکل آئیں مگر انہیں شائد یہ معلوم نہیں ہے کہ آنے والے یہ حکمران پروٹوکول کے اتنے شیدائی ہیں کہ گھر سے باہر نکلیں تو سڑکیں بند کروادیتے ہیں دفتر پہنچیں تو لوگوں کا داخلہ بند ہوجاتا ہے اسمبلی میں موجود ہوں تو ممبران اسمبلی کا ان سے ملنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر جیسے ہی یہ لوگ حکمران بنتے ہیں تو پھر غریب ووٹروں کا جینا مشکل ہوجاتا ہے سرکاری خزانے کو مال مفت سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے ملازمین کی فوج آگے پیچھے رہتی ہے کہنے کو تو یہ اپنے آپ کو خادم اور خادم اعلی کہتے ہیں لیکن انداز بادشاہوں جیسا اپنا لیتے ہیں مفادات سامنے ہوں تو نواز زرداری بھائی بھائی بن جاتے ہیں انتقام سامنے ہو تو پھر ایک دوسرے کی مخالفت میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ پیٹ پھاڑنے ،سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹھ میں چھری گھونپنے جیسے الفاظ ان کی تقریروں میں آجاتے ہیں اور پھر جیسے ہی اقتدار نظر آتا ہے تو مغل گیر ہوجاتے ہیں ان حالیہ الیکشن میں کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے اور خریدوفروخت کے ماہراور چھانگا مانگا سیاست کے بانیوں نے اپنا پنا کام شروع کردیاکسی کو وزارت ملے گی تو کسی کو صدارت ملے گی کسی کو سپیکر شپ مل جائیگی تو کسی کو گورنری پلیٹ میں رکھ کر دیدی جائیگی کسی کو سرکاری فنڈز کا ریلا ملے گا تو کسی کو نوکریوں کا سیلاب دیا جائیگا اور پھر ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کے لئے معاشی اصلاحات اور ملک کو بچانے کے لئے مشکل فیصلے کرناناگزیر ہونگے سیاسی شہرت کی خاطراور اپنے حامیوں کی خوشی کے لیے سخت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے معاشی زوال اور قرضے لینے کا عمل تیز ہو جائے گا جس کا نتیجہ اقتصادی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا ہمارے سیاستدانوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ماضی سے کوئی سبق سیکھیں اور الیکشن مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں یا آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر نیا معاہدہ کر سکیں اس لئے ان سے کوئی امید نہ رکھی جائے کیونکہ نئی حکومت کی ساری توجہ جوڑ توڑ، خرید و فروخت، وسائل کے بے دریغ استعمال اور اپوزیشن سے انتقام لینے پر مرکوزہو گئی اور وہ عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کرپائےگی ان حالات میں ملکی استحکام سمیت عام آدمی کی معاشی صورتحال درست کیسے ہوسکے گی رہی بات عمران خان کی ایم ڈبلیو ایم سے سیاسی الحاق کی میںسمجھتا ہوں کہ راجہ ناصر عباس پہلے بھی کھل کر عمران خان کا ساتھ دیتے آئے ہیں اور اس بار تو انہوں نے اپنی وفادی کی انتہا کرتے ہوئے بغیر کسی شرط کے اپنی پارٹی عمران خان کے حوالے کردی ہے کہ وہ جیسے چاہیں اسے استعمال کرسکتے ہیں علامہ راجہ ناصر عباس اس وقت بھی عمران خان کے ساتھ ثابت قدم رہے جب انہیں انکے اپنے نوازے ہوئے افراد چھوڑ چھوڑ کر نہ صرف جارہے تھے بلکہ ان احسان فراموشوں نے اپنے محسن کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائی بھی شروع کردی اور پھر ان مفاد پرستوں کو اس الیکشن میں عوام نے انکی اصلیت بھی بتا دی جسکے بعد کچھ سیاست سے ہی فارغ ہوگئے اور کچھ سیاسی منظر نامے سے ہی غائب ہوگئے رہی بات علی امین گنڈا پور کی وہ خیبر پختون خواہ کے سیاسی میدان ایسا کام کرجائیں گے جو آج تک کسی نے نہیں کیا ہوگا ہمارے پنجاب کے حکمران تو الیکشن جیتنے سے پہلے ہی پروٹوکول لگوالیتے ہیں جبکہ علی امین ایسا مرد قلندر ہے جو وزیر اعلی نامزد ہونے کے بعد بھی پروٹوکول کے لیے آنے والے پولیس ملازمین کو واپس بھجوا دیتا ہے کہ مجھے ضرورت نہیں آپ اپنا کام کریں۔
اور میںاپنا کام علی امین گنڈا پور جیسا وفادار شخص کپتان کا سرمایہ ہے اور ایسے شخص کو وزیر اعلی بنانا خیبر پختون خواہ کی عوام کے لیے بھی خو ش قسمتی ہوگاامید ہے جماعت اسلامی ،تحریک لبیک اور مجلس وحدت مسلمین کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ملک کی درست سمت کا تعین بھی کریگا اور عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کی لوٹا سیاست سے نجات بھی دلائے گا ۔