بھارت میں ”چکن اور دال مکھنی“ کی ریسپی کا تنازع ہائی کورٹ میں پہنچ گیا

بھارت میں ”چکن اور دال مکھنی“ کی ریسپی کا تنازع ہائی کورٹ میں پہنچ گیا

نئی دہلی: بھارت میں ”چکن اور دال مکھنی“ کی ترکیب پر تنازعہ عدالت میں پہنچ گیا ہے بھارت اور پاکستان میں یکساں مقبول ڈش بٹر چکن کی ایجاد پر تنازع کھڑا ہوگیا ہے، پڑوسی ملک کے دو رستوران اس کی ایجاد کے دعوے پر عدالت میں قانونی لڑائی لڑرہے ہیں جس نے عالمی اخباروں کی بھی توجہ حاصل کرلی ہے.
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بٹر چکن (جسے چکن مکھنی بھی کہا جاتا ہے) سب کی پسندیدہ ڈش ہے جس کا آغاز بھارت سے ہوا، مسالے دار کریمی چٹنی سے بھرپور بٹر چکن کا ذائقہ ہر کسی کو پسند ہے لیکن اس کی ترکیب کی ایجاد پر طویل عرصے سے تنازع چل رہا ہے، جو اب بھارت کی عدالت میں پہنچ چکا ہے.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے دہلی کے دو ریستوران کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی ترکیب کا اصل موجد ہیں، تاہم اس بات کا ٹھوس فیصلہ کرنے کے لیے دونوں ریستوران نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے‘یہ مقدمہ دہلی کے مشہور ریستوران برانڈ موتی محل کے خاندان کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جو آنجہانی امریکی صدر رچرڈ نکسن اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو اپنے مہمانوں میں شمار کرتے ہیں.

کیس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریستوران کے بانی کندن لال گجرال نے 1930 کی دہائی میں جب پاکستان کے شہر پشاور میں ریستوران کھولا تو اس وقت پہلی بار یہ سالن بنایا گیا تھا اس ریستوران نے حریف ہوٹلز کی چین دریا گنج کے خلاف 2 ہزار 752 صفحات پر مشتمل تحریری درخواست عدالت میں دائر کی، ریستوران نے الزام لگایا کہ حریف ریستوران نے اس ڈش کے ساتھ ساتھ دال مکھنی کی ایجاد کا بھی جھوٹا دعویٰ کیا ہے کندن لال گجرال فیملی 2 لاکھ 40ہزار ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ بھی الزام عائد کر ررہے ہیں کہ دریا گنج نے موتی محل کی ویب سائٹ اور اس کے ریستوران کی نقل کی ہے.
موتی محل کے منیجنگ ڈائریکٹر منیش گجرال کا کہنا تھا کہ آپ کسی کی وراثت نہیں چھین سکتے، یہ ڈش اس وقت ایجاد کی گئی تھی جب ہمارے اجداد پاکستان میں تھے دوسری جانب ریستوران دریا گنج کا قیام 2019 میں آیا تھا، حریف ریستوران نے جوابی دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مرحوم خاندان کے رکن کندن لال جگی نے 1947 میں گجرال کے ساتھ مل کر دہلی کا ریستوران کھولا اور یہ ڈش وہیں ایجاد ہوئی تھی، اس لیے وہ اس ڈش کی تخلیق کا دعویٰ کرسکتے ہیں دریا گنج نے اپنی حمایت میں رائٹرز کو 1949 میں ہاتھ سے لکھی گئی رجسٹرڈ پارٹنرشپ دستاویز بھی شیئر کی.

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے