’میرا بیٹا فوجی تحویل سے غائب ہے، کیا مجھے راتوں کو نیند آتی ہوگی؟‘

’میرا بیٹا فوجی تحویل سے غائب ہے، کیا مجھے راتوں کو نیند آتی ہوگی؟‘

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں سینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی آبدیدہ ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے بینچ پر اعتراض کا معاملہ واپس ججز انتظامی کمیٹی کو بھجوایا تو سینئر صحافی حفیظ اللہ خان نیازی روسٹرم پر آ گئے اور بینچ کو مخاطب کر کے کہا کہ ’مجھے نہیں پرواہ کہ 6 ممبر بنچ ہو یا 9 ججز کیس سنیں، میرا بیٹا غائب ہے، آپ کے پاس بہت اختیار ہیں، جو مجھ پر بیت رہی ہے وہ آپ سب پر نہیں بیت رہی، بچوں کو 8 سے 9 ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر رکھا ہوا ہے، میرا بیٹا حسان اللہ نیازی 7، 8 دن سے فوجی تحویل سے غائب ہے، ملنے نہیں دیا جا رہا، مجھے کچھ پتا نہیں میرا بیٹا کہاں ہے؟ کیا مجھے راتوں کو نیند آتی ہوگی؟‘، جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج ہی حفیظ اللہ نیازی سے مل کر حسان اللہ نیازی کا معاملہ حل کرنے کی ہدایت کر دی۔
بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ ہیں، دوران سماعت وکیل حامد خان نے کہا کہ ’لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دائر کی تھی‘، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ’جنتی بھی فریق بننے کی درخواستیں آئی ہیں ان کو بعد میں دیکھیں گے، پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں‘، جس پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ ’عید سے قبل کچھ ملزمان کو رہا کر دیا تھا، رہا ہونے والے ملزمان کی تفصیلات جمع کرا دی ہیں، عید سے قبل 20 ملزمان کو رہا کیا گیا‘۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ’رہا ہونے والے ملزمان کے خلاف اب کوئی کیس نہیں ہے؟‘ وکیل اعتزاز احسن نے بتایا کہ ’ان ملزمان کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، ایک بچے کو ٹرائل کیے بغیر سزا یافتہ کیا گیا وہ اب چھپتا پھر رہا ہے، یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بڑا غلط اور جلد بازی میں ہوا ہے، اٹارنی جنرل کی قابلیت اس کیس میں نظر نہیں آئی‘، جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ ’آپ جس لڑکے کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی گئی فہرست میں ہے؟‘ وکیل اعتزاز احسن نے بتایا کہ ’وہ اس فہرست میں شامل ہے‘۔
اس موقع پر عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جب کہ اعتزاز احسن اور دیگر وکلاء کی جانب سے فیصلے ریکارڈ پر لانے کی استدعا کی گئی اور کہا کہ ’20 ملزمان کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے وہ ریکارڈ پر لائے جائیں‘، جس کی تائید کرتے ہوئے جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ’ہمیں پتا تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا‘، اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم اٹارنی جنرل سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں‘، اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کرلیں۔
سماعت آگے بڑھی تو سابق جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا اور مؤقف اپنایا کہ ’9 رکنی بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس کیس میں نوٹ لکھے، کم از کم 9 رکنی لارجر بینچ کو یہ کیس سننا چاہیے‘، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’کسی جج نے نوٹ میں لارجر بینچ تشکیل دینے کی بات نہیں کی‘، وکیل ملزمان سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’6 رکنی لارجر بینچ میں سے 2 ججز نے اختلاف کیا تو فیصلے کا کیا ہوگا؟ پاکستانی عوام سپریم کورٹ کے چار ججز کے فیصلے کو کس نظر سے دیکھے گی؟ خواجہ احمد حسین نے درست کہا کہ 9 رکنی لارجر بینچ اس کیس کو سنے، جسٹس یحیی آفریدی کے نوٹ کو مدنظر رکھنا چاہیے‘۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ ’جسٹس یحیی آفریدی سمیت کسی جج نے بینچ پر اعتراض نہیں اٹھایا، ججز نے اپنی رائے دی ہے مگر کسی جج نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، جب نوٹ لکھنے والے ججز نہیں اٹھے تو ہم کیوں بینچ سے اٹھ جائیں، اگر ہم بھی بینچ سے الگ ہوگئے تو کیا یہاں پھر کوئی اور آکر کیس سنے گا‘، بعد ازاں عدالت عظمیٰ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف لارجر بینچ کیلئے دائر درخواست منظور کرلی اور لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا، سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس ہی دوبارہ انتظامی کمیٹی کو بھجوا دیا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے