وفاقی حکومت کی جانب سے یومیہ 56 ارب روپے کے قرضے لیے جانے کا انکشاف

وفاقی حکومت کی جانب سے یومیہ 56 ارب روپے کے قرضے لیے جانے کا انکشاف

لاہور : وفاقی حکومت کی جانب سے یومیہ 56 ارب روپے کے قرضے لیے جانے کا انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی وفاقی حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ قرضوں میں اضافے کا نیا ریکارڈ قائم کرنے لگی ہے۔ صحافی شہباز رانا کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے یومیہ 56 ارب روپے کے قرضے لیے گئے۔
شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے یومیہ 56 ارب روپے کے حساب سے صرف 1 ماہ میں 1700 ارب روپے سے زائد کے نئے قرضے لیے۔ شہباز رانا نے سوال کیا ہے کہ آخر اتنا زیادہ قرضہ لینے کی وجہ کیا ہے؟ یہ سارا پیسہ جا کہاں رہا ہے؟۔ دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی قرضے لینے کی رفتار کے باعث صرف 3 ماہ میں ملکی قرضوں میں 3 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو گیا۔
وفاقی حکومت کے 3 ماہ میں نگران حکومت کے آخری 3 ماہ کے مقابلے میں قرض 113 فیصد اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک کے دستاویز کے حوالے سے بتایا گیا کہ مارچ سے مئی 2024 کے دوران وفاقی حکومت کا قرضہ 3 ہزار 11 ارب روپے بڑھا، جبکہ نگران دور کے آخری 3 ماہ میں وفاقی حکومت کا قرضہ ایک ہزار 416 ارب روپے بڑھا تھا۔ دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضوں میں یہ اضافہ دسمبر 2023 سے فروری 2024 کے دوران ہوا تھا، مئی2024 تک وفاقی حکومت کا قرضہ بڑھ کر 67 ہزار816 ارب روپے ہوگیا۔
دستاویز کے مطابق فروری 2024 میں وفاقی حکومت کا قرضہ 64 ہزار806 ارب روپے اور نومبر2023 میں 63 ہزار 390 ارب روپے تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے بیرونی قرضوں کے اعداد و شمار بھی سامنے آگئے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اقتصادی امور کے اجلاس میں حکام اقتصادی امور ڈویژن نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر بیرونی قرض 130 ارب ڈالرز تجاوز کرگیا، اس میں پرائیویٹ سیکٹر کا قرض بھی شامل ہے۔
سیکریٹری اقتصادی امور ڈویژن کے مطابق جاری منصوبوں کی کل تعداد 298 ہے، کثیر جہتی منصوبوں کی کل تعداد 146 ہے، دو طرفہ ایگریمنٹس کے تحت 152 پروجیکٹس ہیں۔بریفینگ میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف سے کمرشل ڈومیسٹک قرض سے متعلق امور وزارت خزانہ دیکھتی ہے، بانڈز سرٹیفکیٹس سے متعلق امور بھی براہ راست وزارت خزانہ دیکھتی ہے۔بریفینگ کے مطابق ایکسٹرنل ڈیولپمنٹ اسسٹنس اور شاٹ ٹرم اسسٹنس اے ڈی دیکھتی ہے، ڈیٹ مینجمنٹ عمل میں وزارت خزانہ، مرکزی بینک اور ای اے ڈی شامل ہیں۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے