دس محرم کے بعد سات دن تک آسمان زرد اور سورج گرہن میں رہا
تحریر:صاحبزادہ حسن احمد یوسفی
تعارفِ امام عالی مقام سبطِ مصطفی ، سید الشہدا، امام ہمام ، امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ۵ شعبان المعظم ۴ ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےآپ کے کان میں اذان پکاری منہ میں اپنا لعاب دھن شریف ڈالا اور آپ کیلئے دعا فرمائی پھر ساتویں دن آپکا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا اور سر کے بال منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سبط رسول و ریحان رسول ہے۔
۱۰ محرم الحرام کا دن ایک ایسے دل خراش واقعہ سے منسلک ہے کہ جس میں کائنات کے والی سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی آل مبارک نے دین کی سر بلندی اور دین کی بقا کے لئے ظالم کے آگے سر نہ جھکایا بلکہ ۶ ماہ کے ننھے شہزادے علی اصغر رضی اللہ عنہ سے سبط مصطفیٰ شہزادہ رسول امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا نظرانہ پیش کرکے دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہمیشہ کے لئے بلند کردیا۔
سید الشہدا سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی بھی شہرت عام ہوگئی تھی امیر المؤمنین حضرت علی و سیدنا حضرت فاطمۃ الزہراء و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین آپ کے زمانہ شیرخوارگی ہی میں جان گئے تھے کہ یہ شہزادہ ظلم و ستم کرنے والوں کے ہاتھوں شہید کہا جائے گا جیسا کہ حدیث پاک میں موجود ہے۔
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا مجھے(حضرت) جبرائیل (علیہ السلام) نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد ارض طف میں شہید کیا جائے گا جبرائیل نے مجھے اس مقام کی یہ مٹی لا کر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین( حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی )شہادت کا بنے گی۔
اسی طرح دوسری حدیث پاک میں حضرت انس بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سنا میرا بیٹا (حسین رضی اللہ تعالی عنہ) جس جگہ شہید کیا جائے گا اس کا نام کربلا ہے لہذا جو شخص تم میں سے اس وقت وہاں حاضر ہو ضرور ان کی مدد کرے۔
معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اہل بیت اطہار تمام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بچپن سے ہی آپ کی شہادت کو جانتے تھے لیکن کسی ایک نے بھی سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست پیش نہیں کی جب کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کی شان تو یہ ہے۔
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمد
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
پڑھی ناز سے جب دعائے محمد
حضور نبی کریم روف الرحیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بچانے کے لیے دعا نہیں فرمائی اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے اس کے بارے میں دعا کی درخواست کی صرف اس لیے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا امتحان ہو ان پر تکالیف و مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور وہ امتحان میں کامیاب ہو کر اللہ تبارک و تعالی کے پیارے ہوں کہ اب نبی کوئی ہو نہیں سکتا تو نواسہ رسول کا درجہ اسی طرح بلند سے بلند تر ہو جائے اور رضائے الہی حاصل ہونے کے ساتھ دنیا اورآخرت میں ان کی عظمت اور رفعت کا بول بالا ہو جائے۔
بعض لوگ یزید پلید کی حمایت میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی مخالفت کرتے ہوئے زبان تان دراز کرتے ہیں کہ سیدنا امام حسین نے حکومت وقت کی اطاعت نہ کر کے فساد پیدا کی اور بغاوت کی ایسی باتیں کرنے والے اس حقیقت سے نہ آشنا ہیں کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کی طرف فساد اور بغاوت کی نسبت کرنا حرام ہے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف فساد کی نسبت کرنے والا اللہ رب العزت کے فرمان کا انکار کرنے والا ہے کہ رب تعالی نے قران کریم میں ارشاد فرمایا۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ
بےشک اللہ رب العزت فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بارگاہ خداوندی میں گزارش کی تھی اے میرے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما تو اللہ رب العزت نے نہ صرف یہ کہ ان کو اپنی محبت سے نوازا بلکہ جنت کے جوانوں کا سردار بھی بنا دیا تو اب جو شخص یہ کہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فساد پھیلایا اور دوسری طرف یہ دیکھا جائے کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام اللہ رب العزت سے عرض کر رہے ہیں کہ باری تعالی میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اللہ رب العزت قرآن میں فرما رہا ہے کہ بے شک اللہ فسادی سے محبت نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف فساد کی نسبت کرنا حرام ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ میدان کربلا میں یزیدی فوجیوں کے مقابلے میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا ڈٹ جانا سچائی تقوے اور حقانیت کی دلیل ہے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کے اس لافانی پہلو کو کشف المہجوب شریف میں بیان فرمایا گیا ( حضرت سیدنا امام حسین جو محققان اولیاء کرام سے ہے اور قبلہ اہل صفا ہیں جب تک حق ظاہر رہا حق کے مطابق کرتے رہے جب حق مفقود ہوا تو تلوار اٹھائی یہاں تک کہ اپنی جان عزیز کو بارگاہ الہی میں فدا کر دیا اور جب تک جان فدا نہ فرما دیا آپ نےآرام نہ فرمایا۔
امام علی مقام حضرت سیدنا امام حسین کی شہادت کا ذکر بذریعہ وحی حضرت جبرائیل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں کے ذریعے نازل ہوا پھر مقام شہادت کا تعین اور نشاندہی فرمائی گئی اس جگہ کا نام بتا دیا گیا پھر شہادت کا وقت زمانہ اور تاریخ بھی بتا دی گئی کہ وہ 60 ہجری کےآخر اور 61 ہجری کے شروع میں واقع ہوگی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کربلا کے میدان پر شہید کیا گیاآپ کی شہادت کا واقعہ بہت طویل اور
دلسوز ہے جس کو لکھنے اور سننے کی دل میں طاقت نہیں ہے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ 16 اہل بیت شہید ہوئے جبکہ کل 72 افراد شہید ہوئے
احسان مانتا ہے زمانہ حسین کا
حور و ملک نے گایا ترانہ حسین کا
اب بھی سخی کے ہاتھ کی دھومیں ہیں چار سُو
ایسا بنایا رب نے خزانہ حسین کا
جس کے قصیدے آیہ تطہیر نے پڑھے
ایسا بنایا رب نے گھرانہ حسین کا
چیخا ہے جس کی ضرب سے ہر دور کا یزید
ایسا بنایا رب نے نشانہ حسین کا
شرق و غرب میں چرچا ہے اُس کے پیار کا
اک میں ہی تو نہیں ہوں دیوانہ حسین کا
سنی ہوں اس لئے ہوں میں شبّیر پر فدا
پایا ہے عشق میں نے یگانہ حسین کا
آصف بقائے دین ہے کربل کی داستاں
یہ فیض بٹ رہا ہے روزانہ حسین کا
آپ کی شہادت کے واقعہ کے بعدسات دن تک اندھیرا چھایا دیواروں پر دھوپ کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور بہت سے ستارے بھی ٹوٹے آپ کی شہادت 10 محرم الحرام 61 ہجری کا واقعہ ہوئی آپ کی شہادت کے دن سورج گرہن میں آگیا تھا مسلسل چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے بعد میں رفتہ رفتہ وہ سرخی جاتی رہی البتہ افق کی سرخی جس کو شفق کہا جاتا ہے آج تک موجود ہے یہ سرخی شہادت حسین سے پہلے موجود نہ تھی بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہادت حسین کے دن بیت المقدس میں جو پتھر بھی اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے تازہ خون نکلتا تھا عراقی فوج نے جب اپنے لیے اونٹ ذبح کیا تو اس کا گوشت آگ کی طرح سرخ بن گیا اور جب اس کو پکایا توکڑوا ہو گیا ایک شخص نظر امام حسین کو سب و شتم کیا تو بحکم الہی آسمان سے ستارے ٹوٹے اور وہ اندھا ہو گیا۔
امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ انہوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی مگر سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہ ہٹے اس واقعہ میں ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے کہ کچھ ہو جائے ہمیں شریعت کا پہلو نہیں چھوڑنا ہمیشہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت پر عمل پیرا ہونا ہے اور یہی سبق منیر اسلام حضرت علامہ مولانا منیر احمد یوسفی علیہ الرحمہ ساری زندگی ہمیں پڑھا کر گئے کہ زندگی کے کسی بھی مقام پر ہوں زندگی کی کسی بھی مشکل میں ہو دین کا پہلو نہیں چھوڑنا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنی جان تو دے گئے مگر انہوں نے اپنے نانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نہیں چھوڑا تو اج ہم جب چھوٹی سی مشکل آجائے تو شریعت کو چھوڑ دیتے ہیںآپ یہی تعلیم دیتے ہوئے دنیا سے تشریف لے گئے یا کچھ ہو جائے شریعت کے پہلو کو نہیں چھوڑنا اور شریعت اور دین اور دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک نعرہ بھی ہمیں دے کر گئے کہ مجھے دین اسلام سے پیار ہے یہی نعرہ لگاتے ہوئے اب دنیا فانی سے کوچ فرما گئے۔
ولی ہوندے نے جتھے او سدا دربار وسدے نے
او تھا واں وسدیاں نے جتھے خدا دے یار وسدے نے