” ہم ہیں پاکستان“ سردار تنویر الیاس کا نعرئہ مستانہ

” ہم ہیں پاکستان“ سردار تنویر الیاس کا نعرئہ مستانہ

تریاق/ نعیم مصطفٰے
یوم آزادی پر اس بار کچھ مختلف ہی دیکھنے کو ملا،ایک تو یہ کہ میڈیا سے منسلک درجن بھر افراد نے آزاد کشمیر میں 14 اگست کو پاکستان کے جشن آزادی کی تقریبات میں نا صرف شرکت کی بلکہ اپنے کشمیری بھائیوں کو پاکستان کے ساتھ یوم آزادی مناتے دیکھا۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے تو یوم آزادی پاکستان کو چار چاند لگا دیئے۔ ”ہم ہیں پاکستان“ کا نعرہ مستانہ بلند کر کے پونچھ راولا کوٹ میں ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد کیا جس میں بلا مبالغہ کشمیر کے طول و عرض سے ہزاروں افراد شریک تھے، ہم جیسے کچھ صحافیوں، اینکرز اور تجزیہ کاروں کو مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے بالخصوص مدعو کیا گیا تھا۔ صحافتی قبیلے کے سرخیل برادرم مظہر برلاس نے لاہور سے راولا کوٹ تک جس خوبصورت انداز میں ہمارے اس دورے کا اہتمام کیا اور اس پر طرہ یہ کہ قلم کار ناصر خان نے سارے راستے جس طرح ہمارا لہو گرمایا اس سے سفری تھکان خاصی کم محسوس ہوئی۔ منیر بلوچ اور شفقت حسین کا ہم سفر ہونا بھی قابل تعریف ہے جنہوں نے پرانی یاد داشتیں تازہ کر دیں اور جوانی کا دور صحافت نظروں کے سامنے دوڑنے لگا۔ راولا کوٹ کا جلسہ تو یقیناً اپنی نوعیت کا ایک منفرد اجتماع تھا جس کے شرکاءکا جذبہ¿ حب الوطنی اور پاکستان سے محبت کا اظہارِ مودت دیدنی تھا۔ پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے اور ہم ہیں پاکستان کا اچھوتا عنوان سردار تنویر الیاس کے سینے میں موجزن پاکستانیت کے جذبے کا جہاں اظہار تھا وہاں لاکھوں کشمیریوں کی دل کی آواز بھی تھا جس نے ان تمام افواہوں اور گردشی خبروں کو لپیٹ کر رکھ دیا جو آزاد ریاست کے نام پر جھوٹے پروپیگنڈے کا باعث بن رہی تھیں۔ یہ جلسہ پاکستان دشمن اور کشمیری مخالف قوتوں کے منہ پر طمانچہ تھا جس نے ایک طرف تو بھارتی بیانیئے کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا تو دوسری جانب مبینہ آزاد ریاست کی گٹھڑی اٹھائے پھرنے والوں کی بولتی بند کر دی۔
ویسے تو سردار تنویر الیاس نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں اہل کشمیر کے لئے کئی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں لیکن ان کی طرف سے 14 اگست کو جشن آزادی کے موقعہ پر پاکستان کے ساتھ اظہار محبت کے لئے کیا جانے والا جلسہ سب پر بھاری ہے۔ انہوں نے بھارتی واویلے پر جو ضرب کاری لگائی وہ لا جواب ہے، انہوں نے کشمیریوں کی آواز کی صحیح ترجمانی کی ہے جس سے بھارت کے ساتھ ساتھ دیگر منافقین کے دانت بھی کھٹے ہو گئے ہیں۔ سردار تنویر تو پنجاب میں بھی کابینہ کے رکن رہ چکے ہیں اور آج کل وفاقی دارالحکومت میں قیام پذیر ہیں لیکن آزاد کشمیر میں ان کا سردار پیلس عالمگیر شہرت کا حامل ہے جہاں یوم آزادی کی تین روزہ تقریبات تزک و احتشام سے منائی گئیں، پاکستان و آزاد کشمیر کے پرچموں کی بہار تو چار سو دکھائی دے رہی تھی لیکن راولا کوٹ، متصل تحصیلوں اور دیہات میں اہل کشمیر ”ہے جذبہ جنوں“ ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے“ ”دل دل پاکستان“ کے نغموں پر جس طرح جھوم رہے تھے اس کا مزہ اپنا ہی ہے۔ گلی کوچوں میں بچوں اور نوجوانوں نے پاکستانی پرچم کا لباس زیب تن کر رکھا تھا جس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے، غرضیکہ جنت نظیر آزاد کشمیر میں پاکستان دوستی اور پاکستانیت کے جذبے سے لیس اہل کشمیر کے ولولہ تازہ کا وہ اظہار دیکھا جو اپنی مثال آپ ہے۔
یہ تو تھاہمارا دورئہ کشمیر اب ذرا راولاکوٹ آزاد کشمیرکے تاریخی پس منظر، سیاسی تحریک، اور نعرہ ”ہم ہیں پاکستان“ پر نظر ڈال لیتے ہیں ۔ راولاکوٹ آزاد کشمیر کا ایک اہم اور تاریخی شہر ہے ، جو اپنی جغرافیائی حیثیت، قدرتی حسن، اور سیاسی کردار کی وجہ سے منفرد مقام رکھتا ہے ۔ راولاکوٹ کے عوام کی جدوجہد اور ان کی پاکستانی شناخت کے ساتھ وابستگی کو اجاگر کرنا اس کا اہم مقصد ہے۔ راولاکوٹ کا تاریخی پس منظر صدیوں پر محیط ہے ۔ مغل دور حکومت سے لے کر سکھ دور اور پھر برطانوی دور حکومت تک، یہ علاقہ مختلف ثقافتوں اور حکومتی نظاموں کے زیر اثر رہا۔ 1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد کشمیر ایک متنازعہ علاقہ بن گیا، اور یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے ۔ راولاکوٹ کے لوگوں نے اس دوران اپنی جغرافیائی حیثیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی آزادی اور حقوق کے لیے مختلف تحریکیں شروع کیں۔ راولاکوٹ میں سیاسی تحریکوں کی جڑیں کشمیر کے متنازعہ علاقے میں واقع ہونے اور اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں میں پیوست ہیں۔ 1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد، کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق نہ دیا گیا، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر ہونے والی جنگوں اور مسلسل کشیدگی نے یہاں کے لوگوں کو مزید عدم تحفظ کا شکار کر دیا۔ان تحریکوں کا مقصد کشمیری عوام کے لیے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنا، ان کے حقوق کی حفاظت کرنا، اور ان کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچانا تھا۔ راولاکوٹ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کی شناخت اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سیاسی طور پر سرگرم ہونا ضروری ہے ۔نعرہ”ہم ہیں پاکستان“ راولاکوٹ کی سیاسی تحریک کا ایک اہم جزو بن گیا۔ اس نعرے کے ذریعے راولاکوٹ کے لوگوں نے اپنے آپ کو پاکستان کے ساتھ منسلک کرنے اور اپنی پاکستانی شناخت کو مزید مضبوط کرنے کا عہد کیا۔ یہ نعرہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک جذبہ ہے جو راولاکوٹ کے لوگوں کی پاکستان کے ساتھ وفاداری اور محبت کو ظاہر کرتا ہے ۔یہ نعرہ راولاکوٹ کے عوام کے لیے نہ صرف ایک سیاسی اعلان ہے بلکہ ان کی قومی شناخت کی بنیاد بھی ہے ۔ اس نعرے کے ذریعے انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں اور اس کی سلامتی، خوشحالی، اور یکجہتی کے لیے کام کرتے رہیں گے ۔ اس نعرے نے یہاں کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور ان کی قومی یکجہتی کو مزید مضبوط کیا۔سیاسی طور پر، یہ نعرہ راولاکوٹ کے لوگوں کی شناخت اور ان کے مطالبات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔ اس نعرے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کی نظر بھی راولاکوٹ اور آزاد کشمیر کی طرف مبذول ہوئی۔ "ہم ہیں پاکستان” کا نعرہ ایک مستحکم سیاسی نظریہ بن چکا ہے ۔ یہاں کی نئی نسل بھی اسی نعرے کے تحت پروان چڑھ رہی ہے اور وہ اپنے آبا¶ اجداد کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کو مزید مضبوط کر رہی ہے ۔ راولاکوٹ کے لوگ اب بھی مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیاں ان کے مضبوط عزم اور پاکستان کے ساتھ ان کی وفاداری کی علامت ہیں۔راولاکوٹ کے عوام کی جدوجہد اور ان کی پاکستان کے ساتھ وفاداری ایک ایسی کہانی ہے جو نسلوں تک یاد رکھی جائے گی۔ راولاکوٹ کے لوگ نہ صرف اپنی آزادی کے لیے لڑے ہیں، بلکہ انہوں نے اپنی پاکستانی شناخت کو بھی مضبوط کیا ہے ، جو کہ ان کے سیاسی اور قومی شعور کی علامت ہے ۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے