لاہور اور سموگ

لاہور اور سموگ

باغوں، خوشبوؤں، ہواؤں، درختوں، محفلوں، رونقوں اور زندہ دلوں کا شہر لاہور سموگ کی گرفت میں ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے اس کی خوبصورتی اور حسن ماند پڑ گیا ہے۔ سموگ دھوئیں اور دھند کا آمیزہ ہے، گنجان آباد شہر اور صنعتی علاقے اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں اسموک اور فوگ مل کر سموگ کہلاتی ہے، یہ فضائی آلودگی کی ایک خطرناک ترین قسم ہے۔ گاڑیوں کا دھواں پاور پلانٹس فیکٹریاں کٹی فصلوں کو جلانا، اینٹوں کے بھٹے، چار کول سٹارٹر فلوئڈز، کیمیائی سالونٹس، پلاسٹک اور ربڑ کی مصنوعات، ڈسپوزل کراکری پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیاء سموگ کا باعث ہیں۔ ان وجوہات سے نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر اکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور کلورو فلورو کاربن پیدا ہوتی ہیں جو نہ صرف انسان بلکہ حیوانات، زراعت سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کیلئے بھی شدید نقصان دہ ہے۔ سموگ سے انسانی صحت شدید متاثر ہوتی ہے دمہ، سانس کی بیماریاں، نزلہ زکام، کھانسی، بخار، پھیپھڑوں کا انفیکشن، آنکھوں میں جلن سانس میں دشواری، سر درد، جی کا متلانا، تھکاوٹ، جسم اور جوڑوں میں درد اور انسان کے مدافعتی نظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سموگ جلدی امراض اعصابی عوارض اسکن کینسر جیسے امراض کے علاوہ حاملہ خواتین بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کیلئے زہر قاتل ہے۔ بدقسمتی سے لاہور میں سموگ کا 30 فیصد حصہ بھارت سے آتا ہے اور بقیہ70 فیصد لاہور کے ارد گرد واقع صنعتی شہروں سیالکوٹ، گجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد اور گجرات سے شامل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر کی طرح بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو بھی مشترکہ کوششیں اور کاوشیں کرنا ہوں گی جس کی ابتدا مریم نواز شریف صاحبہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے ایک بیان میں کر دی ہے۔ نارمل ایئر کوالٹی انڈیکس aqi 50تک نارمل تسلیم کیا جاتا ہے مگر لاہور میں یہ انڈیکس بعض مقامات پر 700سے 1200کی حد تجاوز کر گیا ہے اور اس کی یہ بلند ترین سطح جان لیوا ہو سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کئی ممالک میں سموگ کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور پھر وہاں پر احتیاطی تدابیر کی گئیں۔ ماضی قریب میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ جاپان، برطانیہ اور چائنہ سموگ کا شکار ہوئے مگر احتیاطی تدابیر، ریسرچ، محنت اور ہمت سے چیلنج کا مقابلہ کیا، جس سے حالات میں بہتری پیدا ہو گئی۔ جاپان برطانیہ امریکہ نے تو اس عذاب سے نجات حاصل کرلی لیکن چائنہ اب تک اس سے برسر پیکار ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق اس طرح کے سموگ لیول سے انسان کی زندگی چار سال کم ہو سکتی ہے۔ حکومت پنجاب نے سموگ کی روک تھام کیلئے اہم اقدامات اور قوانین وضع کیے ہیں مگر عوام کی جانب سے تعاون کا فقدان ہے۔ حال ہی میں مجھے بذریعہ موٹروے لاہور سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا، یقیں کیجئے زمینداروں اور کسانوں نے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوے کٹی ہوئی فصلوں کو آگ لگائی ہوئی تھی اور موٹر وے پر 200کلو میٹر تک دھوے کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ گرین لاک ڈاؤن کے ذریعے بھاری ٹریفک ٹرک، ٹرالر، ٹریکٹر، بس، رکشہ وغیرہ کی نقل و حمل میں کمی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں ایک ہفتے کی تعطیلات کر دی گئی ہیں، دفاتر میں ورک فرام ہوم کی پالیسی متعارف کی گئی ہے، آپ جانتے ہیں کہ کووڈ کے دوران دنیا بدل گئی تھی اور گھر سے کام کرنے کا رواج بڑھ گیا تھا اب اسی پالیسی پر دوبارہ عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے لاہور کے تمام اطراف میں موجود آبادیاں بدترین صورتِ حال سے دو چار ہیں۔ برکی روڈ، بیدیاں روڈ، ٹاؤن شپ، ڈی ایچ اے کے تمام فیسز، رائیونڈ روڈ اور فیروز پور روڈ میں سموگ کی سطح بلند ترین ہے۔ شملہ پہاڑی اور اس کے گرد و نوا ح میں ایک کلومیٹر علاقے کو کنٹرول کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ باقی علاقوں میں بھی گرین لاک ڈاؤن لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ بارش سے سموگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے اب ہماری تمام توقعات دعا اور خدا پر ہیں جو کسی وقت بھی کرم کر سکتا ہے اور ہماری مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے۔ مصنوعی بارش کے بارے میں بھی تیاریاں کی جا رہی ہیں اس سلسلے میں چین کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کیلئے رابطے جاری ہیں۔ مصنوعی بارش برسانےکیلئے دوست ممالک جن میں یو اے ای اور سعودی عرب وغیرہ شامل ہیں ان سے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت میں بھی مصنوعی بارش کے تجربات کیے گئے ہیں ان سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سموگ کے طوفان کو کیسے روکنا ہے کیسے اس سے بچنا ہے۔ مندرجہ ذیل اقدامات اور احتیاطی تدابیر نا گزیر ہیں ۔۱- گھروں میں قیام کریں باہر جانے سے گریز کریں۔ ۲- غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ ۳-مسلسل پانی پیتے رہیں۔ ۴- آنکھوں، ناک اور چہرے کو بار بار پانی سے دھوتے رہیں۔ ۵- این 95ماسک استعمال کیا جائے۔ ۶- گھروں میں ایئر پیوریفائر لگائیں۔ ۷- کھڑکیاں دروازے بند رکھیں۔ ۸- موٹے پردے استعمال کریں۔ ۹- کچرہ اور فصلیں جلانے سےباز رہیں۔ ۱۰- موٹر سائیکل اور سائیکل سواری کے دوران عینک استعمال کریں۔ ۱۱- بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو خصوصی احتیاط کرنی چاہیے۔ ۱۲- ڈرائیونگ کرتے ہوئے احتیاط کریں۔ ۱۳- ہلکی ورزش کریں۔ ۱۴- جلد، ناک، آنکھ، گلے اور سینے میں شدید تکلیف کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ ۱۵- سموگ کی اس صورت حال میں ٹیلی میڈیسن بہت کامیاب اور کارگر ہتھیار ثابت ہوئی ہیں۔ عوام کا تعاون اور حکومت کا قوانین پر عملدرآمد کامیابی کی کنجی ہے۔

kamran jani

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے