بھارت صورتحال معمول پر آنے کا ڈرامہ کرنے میں ناکام ہو گیا ، الجزیرہ نے بھانڈا پھوڑ دیا

سرینگر (ویب ڈیسک)مقبوضہ کشمیرمیں 5اگست سے بھارتی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کئے جانے کے بعد سے منگل کو مسلسل سولہویں دن بھی پورے مقبوضہ علاقے میں سخت کرفیو اور دیگر پابندیاں مسلسل جاری رہیں ۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق پورا مقبوضہ علاقے خاص طورپر وادی کشمیر بڑی تعداد میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کی وجہ سے ایک فوجی چھائونی کا منظر پیش کر رہی ہے۔

سرینگر میں بڑی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کیلئے ویرانی کا منظرپیش کرنے والی سڑکوں اور گلیوں میں گشت کررہے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں ٹیلیفون، انٹرنیٹ سروس اور ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات تاحال معطل ہیں اور مقبوضہ علاقے میں مکمل مواصلاتی بلیک آئوٹ 5اگست سے جاری ہے ۔ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت تمام حریت رہنماء گھروں ،جیلوں میں نظر بند ہیں ۔فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت تین سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ سمیت دیگر سیاست دان اورکارکن بھی گزشتہ دو ہفتوں سے زیر حراست ہیں۔

4اگست سے ہی مقبوضہ علاقے میں غیر معمولی مواصلاتی پابندیاں عائد کر دی گئی تھی جس سے خطے کا بیرونی دنیا سے رابطہ معطل ہو گیا تھا ۔ کرفیو او رسخت پابندیوں کے باعث کشمیریوں کو اس وقت بچوںک یلئے دودھ او رزندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سا منا ہے اور علاقے میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہورہی ہے ۔ جموں وکشمیر کے مخصوص علاقوں میں ددو سو کے قریب پرائمری سکول دوبارہ کھولنے کے نام نہاد احکامات کے باوجود سکول میں تدریسی سرگرمیاں شروع نہیں ہو سکی ہیں کیونکہ خوفزدہ والدین نے کرفیو اور اکا دکا مظاہروں کے دوران اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ مقبوضہ علاقے کی صورتحال کشیدہ ہے ۔

ٹی وی چینل الجزیزہ نے مقامی افراد کے حوالے سے کہا ہے کہ بھارتی حکومت صورتحال معمول پر آنے کا ڈرامہ کرنے کیلئے وادی کشمیر کی گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بدترین صورتحال میں سکول کے طلباء کی زندگیوںک و خطرے میں ڈال رہی ہے ۔نٹی پورہ کی رہائشی دوبچوں کی والدہ صفیہ تجمل نے کہاکہ پرائمری کلاسوں میں زیر تعلیم طلباء کی عمربار ہ سال سے کم ہوتی ہے اور مقبوضہ علاقے میں 99فیصد مواصلاتی بلیک آئوٹ ہے۔ اگرجھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں تو کون ہمارے بچوں کی سلامتی کی ذمہ داری لے گا ۔

سرینگر کے انجینئر نثار میر نے الجزیرہ کو بتایا کہ بچوں کو سکول بھیجنے کیلئے صورتحال ٹھیک نہیں ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ وہ بچوں کو یونیفارم میں سکول جاتے دکھا کر صورتحال معمول پر آنے کا ڈھونگ کر سکے ۔ سرینگر کے متعدد نواحی علاقوں میں مظاہرین نے کرفیو کو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اوران کی پولیس اور فوجی اہلکارں کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ سرینگر کے رہائشی محمد شفیع کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے کے نوجوانوں کا ماننا ہے کہ کچھ کرنے کا یہ آخری موقع ہے ۔ انہوں نے مظاہرے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں کشمیریوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ سرینگر میں بازار اور دکانیں بند ہیں جبکہ ٹرین سروس ، پبلک ٹرانسپورٹ اورپرائیویٹ بسیں بھی ابھی تک بند ہیں۔ سرینگر کے مقامی مال میں ایک دکان کے مالک نے بتایا کہ ہم اپنی دکانیں نہیں کھولیں گے کیونکہ مقبوضہ علاقے کی صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور ہم صورتحال بہتر ہونے کا انتظار کر یں گے ۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے