عوام سے 416 ارب لیکر خزانے میں نہ دینے والوں کو 208 ارب معاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی گیس کے بیان میں بتایا گیاکہ اس ضمن میں صدارتی آرڈی ننس حتمی مراحل میں ہے۔ جن صنعتکاروں کے واجبات معاف کرنے جارہی ہے ،ان میں سے زیادہ ترکراچی کے ہیں، یہ رقم1971ء سے لے کر2009ء تک معاف کیے گئے قرضوں کے قریباًبرابر ہے۔
سپریم کورٹ میں چندبرس پہلے پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق اُس عرصے کے دوران کمرشل بینکوں نے 256ارب کے قرضے معاف کئے۔ موجودہ صورتحال میںمجوزہ طورپرمعاف کیے جانے والے واجبات 208ارب سے بڑھ سکتے ہیں جو دسمبر2018 ء تک 416ارب 30کے لگ بھگ تھے۔
مجوزہ صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے کیمیائی کھاد، ٹیکسٹائل ، توانائی اورسی این جی شعبے کے ذمے آدھی رقم معاف کردی جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے رکن علی پرویز کے سوال پرپٹرولیم ڈویژن نے قومی اسمبلی میں تفصیلات جمع کرائیں کہ 2012ء تک یہ رقم701ارب 50کروڑتک جاپہنچی تھی تاہم دسمبرکے اختتام تک صرف285ارب اداکئے گئے۔
یپلزپارٹی حکومت نے جی آئی ڈی سی نافذکیا،جس کے خلاف صنعتکارعدالتوں میں چلے گئے بعدازں ن لیگ کی حکومت نے 2015ء میں قانون میں ترمیم کی تاہم یہ شعبے بدستوراپنے ذمے واجبات دینے سے انکاری ہیں۔ایسا دکھائی دیتاہے سابق دونوں اورموجودہ حکومت میں ان طاقتورلوگوں کے ذمے خطیرواجبات نکلوانے کی سیاسی مرضی شامل نہیں۔
ذرائع کے مطابق ان حلقوں سے عدالت کے باہر معاملہ حل کرنے کے سوااورکوئی راستہ نہیں ، 2015ء کی قانون سازی کے ذریعے واجبات نکوالنے کیلئے حکومتی مقدمہ مضبوط تھاتاہم 2011ء کی قانون سازی کمزورتھی۔ٹیکسٹائل شعبے کے ذمے 42ارب 50کروڑمیں سے 21ارب 20 کروڑکے واجبات معاف کئے جائیں گے۔
کیپٹوپاور پلانٹس کے ذمے91ارب 40کروڑکے واجبات میں سے جبکہ سی این جی کے ذمے 80ارب 10کروڑمیں سے آدھے آدھے معاف کردیئے جائیں گے۔ سب سے زیادہ فائدہ سندھ کی 2گیس کمپنیوں کوہوگا،جن کے ذمے178ارب کے واجبات ہیں۔ایس این جی پی ایل کے ذمے 136 ارب کے واجبات میں سے 81ارب 80کروڑکے واجبات معاف کئے جائیں گے۔
کے الیکٹرک اوربجلی کمپنیوں نے بھی 57ارب 40کروڑکے واجبات ادانہیں کئے ۔ماڑی پٹرولیم کمپنی کے ذمے 92ارب 30 کروڑ اورپاکستان پٹرولیم لمیٹیڈ کے ذمے 5ارب 60کروڑکے واجبات ہیں۔اوجی ڈی سی ایل کے ذمے ساڑھے 4ارب کے واجبات ہیں۔