قانون اور مکڑی کا جالا

گذشتہ روزپنجاب اسمبلی کے اراکین نے خاموشی سے اپنی تنخواہوں کا بل پاس کرلیا تو مجھے ارسطو کا کہا ہوا ایک فقرہ یاد آگیا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں صرف کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں جبکہ طاقتوراسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں بلکل اسی طرح اراکین اسمبلی نے بھی اپنے لیے قانون کو موم کی ناک بنانتے ہوئے ایک ہی جھٹکے میں پنجاب اسمبلی سے اپنی تنخواہ 83ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ ماہانہ کرنے کابل متفقہ طور پر منظورکرلیا یعنی حکومت اور اپوزیشن دونوں متفق نہ اسمبلی میں شور شرابہ ہوا نہ سپیکر صاحب نے کسی کو باہر نکالا نہ شیم شیم کے نعرے لگے نہ ارکان گتھم گتھا ہوے نہ واک آوٹ ہوا اورنہ ہی پنجاب اسمبلی کے باہرسیڑھیوں پر اجلاس ہوئے کیونکہ یہ اراکین اسمبلی کے ذاتی مفاد کا کام تھااسکے علاوہ ایک اور کام بھی ہے جسکا آج تک کسی کو علم نہیں اراکین اسمبلی اور اسمبلی ملازمین سرکاری کھاتہ سے ہر ماہ لاکھوں روپے کی ادویات بھی ایل پی کے زریعے ہضم کرجاتے ہیں جسکا کبھی کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہوا خیر سے تنخواہیں بڑھنے والا کام تو اب ہوا ہے اور اس کام میں بھی شرارتی لوگوں نے اہم کردار ادا کیا جو چاہتے ہیں کہ اس حکومت سے ایسے ایسے کام کروائے جائیں جس سے عوام میں بدنامی ہو اور سب سے بڑھ کر جس شخص نے اس کام میں حصہ ڈالا وہ خود وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار ہیں جنہوں نے اس کام کے لیے اپنی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کو بھی اعتماد میں لینا گوارا نہیں کیا مگر انہوں نے عجلت میں ایسا بل منظور کروالیا جسکا زیادہ فائدہ انہیں ہی پہنچے دیکھا جائے تو لاہور میں رہائش کے لیے وزیراعلی کے لیے جو قانون بنایا گیا ہے اس پر صرف موجودہ وزیراعلی ہی پورے اترتے ہیں باقی سب اس قانون سے باہر ہیں راتوں رات اپنے فائدے کے لیے قانون سازی کرنے والوں نے اس بارے میں تو کوئی قانون نہیں بنایا کہ ایک غریب اور پریشان حال انسان چند ہزار کی مالی امداد کے لیے کئی کئی مہینے دفتروں کے چکرکیوں لگاتا ہے ،سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے نام پر مریضوں کی عزت نفس کیوں مجروع کی جاتی ہے اور تھانہ کلچر کو تبدیل کیوں نہیں کیا جارہا تھانہ کلچر کا ذکر آیا ہے تو اس بارے میں ایک جج صاحب کی تحریر ہماری آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ہوگی جسے میں آخر میں تحریر کرونگا ابھی تو حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے عوام کے لیے جو واضح پیغام دیا گیا ہے اسے پڑھ لیا جائے تاکہ ہمیں اپنے منتخب کردہ اراکین اسمبلی کے ارادوں کا اندازہ ہوسکے کہ وہ خزانہ خالی کا کہہ کہہ کر ہمیں بدحالی کی طرف کیوں دھکیل رہے ہیں اور خود مالی مفادات اٹھاتے ہوئے زرا بھی نہیں شرماتے کیونکہ انکا مقصد ہی یہ ہے کہ کسان کو سبسڈی نہ دو،کیونکہ خزانہ خالی ہے، کھادیں مہنگی کردو ،کیونکہ خزانہ خالی ہے،بجلی مہنگی کر دو ،کیونکہ خزانہ خالی ہے،تیل کی قیمتیں بڑھادو ،کیونکہ خزانہ خالی ہے ،گیس کی قیمتیں بڑھا دو،کیونکہ خزانہ خالی ہے،یونین فنڈ روک دو ،کیونکہ خزانہ خالی ہے،ہسپتالوں کی فیس بڑھادو،کیونکہ خزانہ خالی ہے ہاں اگر بڑھانی ہے تو ارکان اسمبلی کی تنخواہ بڑھا دو کیونکہ یہ بہت غریب ہیں جنہوں نے اپنے غیر قانونی اثاثوں میں سے کروڑوں روپے لگا کر الیکشن جیتے ہیں اس لیے اب انکا گذر بسر نہیں ہوتا کیونکہ ترقیاتی کاموں کے نام پر پیسے بھی بند ہیں جس میں سے اچھی خاصی کمائی ہوجاتی تھی اس لیے انکی تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر ہو چکا تھا یہاں ایک اور قابل ذکر بات کا نہ کرنا بھی ان اراکین کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگا کہ کم تنخواہ کی بدولت یہ اراکین اسمبلی اتنے پریشان تھے کہ آج تک انکی وجہ سے اسمبلی اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوسکا ہمیشہ کی طرح گھنٹوں کی تاخیرآج کا بھی معمول ہے اس پر کوئی قانون سازی نہیں کرنی اور نہ ہی پولیس کلچر کی تبدیلی پر کچھ کرنا ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان اپنی دوکانداری ہی پولیس کے سر پر چلاتے ہیں اگر یہ کلچر تبدیل ہوگیا تو پھر پوری سیاست ہی تبدیل ہو جائے گی اب جج صاحب کی تحریر بھی پڑھت جائیں جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ 2008 کی تپتی دوپہر میں ایک عورت ہانپتی کانپتی میری عدالت میں داخل ہوئی اور روتے ہوئے فریاد کرنے لگی کہ اس کے بیٹے کو آج خان پور کا sho جعلی پولیس مقابلے میں مار دے گاجس پر میں نے وہاں موجود ایک وکیل کو اس عورت کی درخوست لکھنے کا کہا اور اس درخواست پر اسی وقت تھانیدار کو بلا لیا۔ sho نے لا علمی کا اظہار کیا۔تو عورت نے بتایا کہ وہ خود بیٹے کو تھانے میں مل کر آئی ہے۔sho نے کہا کہ اس عورت کے بیٹے کے خلاف دو مقدمات رجسٹرڈ ہیں اور پولیس اس کو تلاش کر رہی ہے اور پھر میں نے دونوں مقدمات کی ایف آئی آرمنگوالیں اور اسی وقت پولیس کو کہا کہ دونوں مقدمات کے مدعیان کو گھر سے لے آئے کیونکہ عورت بضد تھی کہ اس کے بیٹے کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے لیے جھوٹی ایف آئی آر اسیsho نے درج کی ہیں sho کو میں نے عدالت میں بٹھا لیا اور دوسرے تھانے کے sho کو بلا کر اسی وقت مدعیان کو بلوا لیا۔دونوں ایف آئی آر کے مدعی کہنے لگے کہ انھیں اس مقدمے کا کوئی علم نہیں ہے اوریہ سب جھوٹ ہے ۔جس پر میں نے sho کو کہا کہ جب تک وہ ملزم یہاں نہیں آئے گا تم عدالت سے باہر نہیں جا¶ گے۔ بہرحال ملزم کوہتھکڑیوں میں میرے سامنے پیش کیا گیا اور مجھے مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ sho اس ملزم کی بیوی کا عاشق تھا اور اس کو مجبور کرتا تھا کہ وہ اس کو طلاق دے دے تاکہ shoاپنی گندی خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکے مگر اس شخص کے انکار پر اس کے خلاف دو جھوٹے مقدمات بنا کر اس کو گرفتار کر لیا اور گرفتاری خفیہ رکھی ریکارڈ میں گرفتاری کا اندراج اس لیے نہ کیا گیا کہ مذکورہ sho ملزم کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا پروگرام بنا چکا تھا۔ملزم کو پولیس کے قبضے سے فارغ کروا کر میں نے تمام واقعہ کی اطلاع اسوقت کے ڈویژنل سربراہ کو دی جس نے اسی روز اس sho کا تبادلہ کر دیا مگر وہ sho ایک ماہ بعد پھر اسی تھانہ میں تعینات کر دیا گیا۔اس قسم کے بے شمار واقعات لکھ سکتاہوں جو پولیس کی زیادتیوں کی گواہی دیں گے مگر کیا ان حالات میں پولیس کو 22A کے اختیار دینا ٹھیک رہے گا پنجاب کا ہر تھانہ اس قسم کے واقعات سے بھرا پڑا ہے پولیس کو عدالت کا ڈر نہ ہو توانکے رویوں اور کارناموں سے فرعونیت بھی شرما جائے ۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے