اسد عمر نے بجٹ خسارے پر سوالات اُٹھا دئے،حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا ڈلا
اسلام آباد (ویب ڈٰیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بجٹ خسارے سے متعلق کئی سوالات اُٹھا دئے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محاصل کے اجلاس میں سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ بجٹ 20-2019ء کے موقع پر بجٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 7.2 فیصد بتایا گیا تھا لیکن اس کے صرف 20 دن بعد 30 جون کو اسے 8.9 فیصد بنا دیا گیا۔
اسد عمر نے دوران اجلاس غلط بیانی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بتایا جائے کہ پارلیمنٹ کے سامنے کس نے حقائق چُھپائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کوئی تو ہے جو پارلیمنٹ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے کہا کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئیے اور نیب کے حوالے کر دینا چاہئیے ۔
رکن قومی اسمبلی علی پرویز نے اسد عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے جی آئی ڈی سی پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں کیونکہ انہی کے وزارت خزانہ کے دور میں اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔ جس پر سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ سنبھالنے کے بعد محاصل اکٹھا کرنے کے حوالے سے مایوس کُن اعدادوشمار سامنے آئے تو حکومت نے اعلیٰ عدالتوں سے ٹیکس سے متعلقہ مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی بنچ بنانے کی درخواست کا فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے اس آرڈیننس سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ جی آئی ڈی سی کے معاملات طے کرنے کا فیصلہ پہلے کیا گیا تھا اور اس کی قیمتوں میں اضافے پر بعد میں غور کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس دوران اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نے بھی سی این جی سیکٹر پر جی آئی ڈی سی آدھا کر دیا تھا لیکن اس پر تو بالکل خاموشی چھائی رہی اور کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ اجلاس میں تیاری کے بغیر آنے پر سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ پر کمیٹی نے اظہار برہمی بھی کیا کیونکہ ان کے پاس بنیادی معاملات پر کیے جانے والے سوالات کا بھی جواب نہیں تھا۔