“ہاؤڈی مودی” سے “ہٹلر مودی” تک
یہ بائیس ستمبر کا دن ہے؛ ہیوسٹن کا “این آر جی” اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہے، پچاس ہزار سے زائد پڑھے لکھے انڈیننز جمع ہیں؛ “ہاؤڈی مودی” (خوش آمدید مودی)کے نعرے لگ رہے ہیں اور زندہ انسانوں کو جلا دینے والا؛ محض چند سال پہلے،امریکہ کے ویزہ آفس سے دھتکار کر پاسپورٹ واپس کئے جانے والا، بھیانک قصائی, مودی ہال میں داخل ہورہا ہے۔ اپنے مکارانہ اور گھٹیا انداز میں امریکہ کے 9/11 اور انڈیا کے 26/11 کو جوڑ کر اسکی ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہا ہے اور پاکستان کو سبق سکھانے کا ارادہ کرکے! “نڑنیک” (فیصلہ کن) لڑائی لڑنے کا عندیہ دے رہا! ہم اکثر سوچتے تھے کہ کیسے لوگ ہوں گے جنھوں نے اس قصائی کو چُنا ہوگا اور انکی “کریم” کو دیکھ لیا؛ جنگ کے اعلان پر امریکی انڈیننز کے سیاہی مائل چہرے، سرخ ہوتے ہوئے، نقوش پھیلتے ہوئے اور چندھی آنکھوں کی پتلیاں پھڑپھڑاتے ہوئے! یہ ہے “امن کی آشا” کا ظلم کی آشاؤں سے مزین چہرہ!!!
آپکا کیمرے سے مذّین ڈرون، اسٹیڈیم سے باہر نکلتا ہے اور تاحد نگاہ تک پھیلے ہوئے خوبصورت پاکستانی، امریکہ کے کونے کونے سے جمع ہیں؛ کشمیر کے پرچم تھامے! پورے امریکہ سے کمیونٹی لیڈروں نے اپنی جاب، بزنس پرے رکھا اور “آتش نمرود میں کود پڑا عشق بن گئے”! دو ہفتے پہلے شگفتہ نقوی نے کہا تھا، “کامران جتنے لوگ اسٹیڈیم کے اندر ہوں گے ہم اتنے ہی باہر جمع کریں گے”، مبشر چوہدری، پاکستانیوں کے ساتھ انڈین امریکی سکھوں کا لشکر ساتھ لیکر آئے؛ اور طاہر جاوید حسب معمول اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے نظر آئے! ہمارے ڈیلس سے امتیاز راہی اور غزالہ حبیب کی ہمت کو سلام؛ باقی سب سینکڑوں ہزاروں کا ذکر ناممکن ہے لیکن ان سب پر لاکھوں سلام!
پاک پیک نے اپنا برسوں کی محنتوں کا خراج کیپیٹل ہل پر وصول کیا! پورے امریکہ کی متفرق ریاستوں سے ڈاکٹرز، انجنئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، بزنس مین اور دیگر شعبوں کے ماہرین واشنگٹن ڈی میں اکھٹے ہوئے اور کانگریس سے کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے میں مدد مانگی۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ایک ریپبلکن اور ایک ڈیموکریٹ کانگریس مین نے مشترکہ خط اقوام متحدہ کو لکھا اور اس خط پر پینتیس کانگریس مین نے دستخط کیے! یہ پاک پیک کے ممبران کا اثرورسوخ اور آگاہی تھی کہ ان پینتیس اراکین نے مودی کی ہیوسٹن میں تقریب میں شرکت کی دعوت بھی ٹھکرا دی تھی! میڈیا کے ذریعے یہ خط جب وزیراعظم عمران خان تک پہنچا تو انکی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ پوری دنیا کے پاکستانی ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اپنے کشمیر کے لئے۔
کچھ افلاطون جن کی “عظیم معلومات کا ذریعہ چند اخبارات اور ٹی وی چینلز ہیں، منفیت پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یاد رکھیں، انسان کے ہاتھ میں صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے خلوص دل سے انتھک محنت۔ امریکی انڈیننز بہت امیر ہیں اور لابنگ پر بے انتہا خرچ کرتے ہیں انکی پولیٹیکل ایکشن کمیٹی “آئی پیک” کہلاتی ہے جبکہ یہودیوں کی “اے پیک”۔ یہ دنیا کی دو بڑی پیکس ہیں اور جو ہم بچپن سے یہودی لابی اور انڈین لابی سنتے آرہے ہیں وہ یہی پیک ہوتی ہیں۔ پاک پیک (پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی) کے محض بارہ بورڈ اراکین نے اپنے دوستوں اور تنظیم کے ممبران کی مدد سے پینتیس کانگریس مین تک سیاسی اثرورسوخ حاصل کیا تو سوچیں اگر محض دس ایسی ٹیمیں ایسے ہی کام کریں تو اس اثر کو دس گنا بڑھا سکتی ہیں۔ کانگریس کے اراکین کی تعداد 435 ہے گویا دس گنا مضبوط پاک پیک آدھی کانگریس میں رسائی حاصل کرسکتی ہے۔ یہ ہے کام کرنے کا، ہمت کا، محنت کا اور مستقل مزاجی کا؛ لیکن اسکے سوا حل کیا ہے؟ اکثر مذہبی فالورز تنقید کرتے ہیں کہ آپ امریکہ کو سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ سب الّلہ کے ہاتھ میں؛ یقیناً ایسا ہی ہے لیکن ستر سال سے حج پر کشمیر کے لئے دعا ہو رہی ہے؛ کیا آزاد ہوگیا؟ ہوسکتا ہے کہ اس میں ہمارے لئے کوئی اشارہ ہو؛ مزید ہمت اور عقل سے کام کرنے کا۔
ہمارے وزیراعظم بھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے موجود ہیں؛ انکی مضبوط قیادت اور کشمیر پر دو ٹوک موقف، کمیونٹی کے دلوں کو گرما رہا ہے۔ نیویارک کی پاکستانی کمیونٹی 27 ستمبر ،جمعتہ المبارک کو نیویارک کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کرنے جارہی ہے؛ مین ہیٹن بیس ہزار لوگوں اور کشمیر کی آزادی کے فلک شگاف نعروں سے گونجے گا اور “ہاؤڈی مودی” کی بربادی سے “ہٹلر مودی” کی آوازیں گونجیں گی۔ دنیا کو پتا چل جائے گا کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل کا دکھ اسّی سال میں کم نہیں ہوا تو اسی لاکھ کشمیریوں پر ظلم پچاس دن میں کیسے بھول جائیں؛ نہ بھولیں گے، نہ بھولنے دیں گے! جب تک کشمیریوں کو آزادی نہیں ملے گی، انڈیا کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے؛ یہ وعدہ ہے!!!