بہت کم اور بہت زیادہ کھانے والوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، تحقیق

نیویارک: تین الگ الگ تحقیقی جرائد میں شائع ہونے والے نفسیاتی مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو بہت کم یا بہت زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں خودکشی کا رجحان بھی اعتدال سے کھانے والوں کی نسبت پانچ سے چھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ خودکشی کا رجحان بطورِ خاص کم کھانے والوں میں سب سے نمایاں طور پر دیکھا گیا۔

یہ تینوں مطالعات ڈاکٹر ٹوموکو یوڈو کی قیادت میں کیے گئے جو اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک، البینی میں صحتِ عامّہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں؛ جبکہ ان مطالعات میں 36,000 سے زیادہ بالغ افراد کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا۔

واضح رہے کہ کھانے پینے میں بے اعتدالی کی تین الگ الگ صورتیں ہیں:
پہلی صورت میں متاثرہ فرد اپنا وزن بڑھنے سے اتنا زیادہ خوفزدہ ہوتا ہے کہ وہ بہت کم کھاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وزن بھی معمول سے نہایت کم رہ جاتا ہے۔ طبّی اصطلاح میں اسے ’’اینوریکسیا نرووسا‘‘ (Anorexia Nervosa) یا مختصراً اینوریکسیا کہا جاتا ہے۔

دوسری صورت میں متاثرہ فرد اتنا کھاتا ہے کہ بھوک ختم ہوجانے کے بعد بھی کھاتا رہتا ہے۔ اس کیفیت کو اردو میں بسیار خوری جبکہ انگریزی میں Binge-Eating کہا جاتا ہے۔

تیسری صورت میں متاثرہ فرد سب سے چھپ کر خوب کھاتا ہے لیکن احساسِ جرم میں مبتلا ہو کر زبردستی الٹیاں کرتا ہے، دست آور/ قبض کشا گولیاں کھاتا ہے یا پھر وزن گھٹانے والی دواؤں کا خوب استعمال کرتا ہے جو اس کی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اسے ’’بولیمیا نرووسا‘‘ (Bulimia Nervosa) یا مختصراً صرف بولیمیا کہتے ہیں۔

طبّی تحقیقی جریدے ’’میو کلینک پروسیڈنگز‘‘ میں شائع ہونے والے پہلے مقالے میں ٹوموکو یوڈو اور ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ کھانے پینے میں بے اعتدالی کے شکار بیشتر افراد یا تو اس کیفیت کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں پاتے یا پھر کسی سماجی دباؤ کی وجہ سے وہ ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں۔ مطالعے میں شریک 50 فیصد سے کم افراد نے ان کیفیات کی موجودگی پر کسی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے رجوع کیا تھا۔ اینوریکسیا کے مریضوں ڈاکٹر/ ماہرِ نفسیات سے رابطے کی شرح 34.5 فیصد، بولیمیا میں 63 فیصد جبکہ بسیار خوری کے مریضوں میں یہ شرح 49 فیصد تھی۔

اسی ٹیم کی دوسری تحقیق ’’بی ایم سی میڈیسن‘‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ کھانے پینے میں بے اعتدالی برتنے والے افراد میں خودکشی کا رجحان، معمول کے مطابق کھانا کھانے والوں کے مقابلے میں 5 سے 6 گنا زیادہ تھا۔ یہ کیفیت بطورِ خاص اینوریکسیا میں مبتلا افراد میں زیادہ دیکھی گئی۔

تیسرے مطالعے میں 207 ایسے رضاکار شریک کیے گئے جو بسیار خوری کے عادی تھے۔ معمول سے زیادہ کھانے کے باوجود، ان میں سے 50 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں اپنے وزن اور ’’فیگر‘‘ کی بہت زیادہ فکر ہے؛ اور انہیں وہ ’’حد سے زیادہ اہمیت‘‘ دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے غذائی معمولات اور وزن/ فیگر کے باہمی تعلق میں متضاد سوچ کے حامل تھے، بلکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اسی طرح سوچنے کے عادی تھی۔ یہی وجہ کہ اپنی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی وہ کئی طرح کے سنگین مسائل میں مبتلا دیکھے گئے۔

admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے